سیاسی کارکنوں پر وزارتِ عظمیٰ کے دروازے بند کیوں؟
سال 2016 اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔نیا سال سیاسی طور پر نہایت سرگرم ہوگا، 2018 میں عام انتخابات متوقع ہیں، اس لحاظ سے سال 2017 کافی اہم ہے۔ نئے سال میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہوں گی۔
ہر سیاسی جماعت کی توجہ آنے والے انتخابات پر ہے، انتخابی گہما گہمی کا آغاز نئے سال سے ہی ہو جائے گا۔ بھرپور انداز میں انتخابی مہمات بھی چلائی جائیں گی، پارٹی ٹکٹ دیتے ہوئے کہیں رشتے داری کام آئے گی، کہیں وفاداری تو کہیں پیسہ اپنا جادو دکھائے گا۔
پاکستان میں ان ہی بنیادوں پر پارٹی ٹکٹ دیے جاتے ہیں اور اگر ان تمام تر خوبیوں کے باوجود بھی ٹکٹ نا ملے تو آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا جائے گا، جیتنے کے بعد بولی لگے گی اور جو جتنا زیادہ بھاؤ دے گا وفاداری اس کے نام کر دی جائے گی۔
بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو سیاسی جماعتیں اکثر پارٹی ممبران کی متفقہ رائے اور مشاورت کے بعد جا کر ملک کے سربراہ کی دوڑ کے لیے اپنا نمائندہ منتخب کرتی ہیں، جیسے امریکا میں، جہاں سیاسی بصارت، صلاحیت اور دیگر اہم قائدانہ قابلیت کی خوبیاں دیکھنے کے بعد براک اوباما کو صدارتی انتخابات کے لیے ٹکٹ مل جاتا ہے اور وہاں پارٹی کنوینشن بلوا کر اور پارٹی ممبران کے وفود کی رائے لینے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ٹکٹ نصیب ہوتا ہے۔
پڑھیے: پاکستانی نوجوان اور سیاست
زیادہ دور کیوں جائیں پڑوسی ملک ہندوستان کو دیکھ لیجیے، وہاں مودی کو ان کی سیاسی جماعت، گجرات میں انفراسٹریکچر اور دیگر چند شعبوں میں ہونے والی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کی وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ کے لیے چن لیتی ہے۔
ہمارے ملک میں جمہوری نظام ہے مگر افسوس کے ساتھ ملکی تاریخ میں آج تک اقتدار مودی کی طرح کسی نچلے طبقے سے آنے والے شخص کو دینا تو دور، کسی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کو بھی نصیب نہیں ہوا۔ افسوس کے ساتھ سیاسی میدان میں برٹش راج کے بعد اشرافیہ راج ہی قائم رہا ہے۔
ایسا نہیں کہ ہمارے وطن عزیز کے لوگ گزشتہ دہائیوں میں سیاسی طور پر متحرک نہیں تھے یا ان میں قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان تھا۔ مختلف سیاسی جماعتوں میں کئی ایسے سیاسی رہنما پیدا ہوئے جن میں سیاسی بردباری اور بہتر پالیسی سازی کا ہنر بھی تھا مگر متوسط طبقے کے کارکنوں اور 'جیالوں' کو اقتداری عہدوں کی تقسیم میں ایک حد تک ہی رکھا گیا۔
حالانکہ ان میں سیاسی بصیرت تھی اور قائدانہ صلاحیت بھی مگر ایسے لوگوں کو ہمیشہ ماتحت ہی رکھا گیا لہٰذا انہیں صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
ہمارے ملک کی بڑی جماعتوں کے اندر ہی جمہوری عمل نظر نہیں آتا، ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں کے اندر پارٹی انتخابات ہی منعقد نہیں کر وائے جاتے۔ اکثر سیاسی قائدین آمریت کے خلاف ببانگ دہل تقاریر کرتے ہیں، اپنی قربانیوں اور شہادتوں کو گنواتے رہتے ہیں اور ان شہادتوں کے ترازو ہمارے سامنے پیش کر دیتے ہیں، تو پھر اپنی پارٹیوں کے اندر آمرانہ روش کیوں رکھتے ہیں؟
آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کارکردگی کی بنیاد پر وزارت اعظمیٰ کے لیے نامزدگی نہیں ہوتی؟ صرف اور صرف بادشاہی نظام کے تحت ہی لاڈلوں، پیاروں، اثر و رسوخ رکھنے والوں کو ہی ٹکٹ کیوں ملتے ہیں اور پارٹی کا قائد ہی وزیر اعظم یا صدر کیوں بنتا ہے؟
پڑھیے: خاندانی سیاست، حقیقی قیادت؟
مسلم لیگ ن کی بات کی جائے تو یہاں احسن اقبال، اسحاق ڈار، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، چودھری نثار احمد، دانیال عزیز اور سردار ایاز صادق جیسے منجھے ہوئے سیاسی کارکن ہیں، انہیں پارٹی ٹکٹ بھی دیا جاتا ہے اور وزارتیں بھی، لیکن انہیں وزارت اعظمیٰ کے لیے نامزد کیوں نہیں کیا جاتا؟
اسی طرح پیپلز پارٹی میں دیکھا جائے تو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی مجبوری کا سودا تھے، بالکل ایسے ہی جیسے راجہ پرویز اشرف رہے۔ مگر کیا سب لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ اس دور میں صدرِ پاکستان جو کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ بھی تھے، آئینی طور پر ایک بے اختیار پوزیشن رکھتے ہوئے بھی بحیثیتِ پارٹی سربراہ وزیرِ اعظم کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے رہے؟
پیپلز پارٹی میں رضا ربانی، اعتزاز احسن، شیری رحمان، خورشید شاہ، فرحت اللہ بابر، فاروق حامد نائک جیسے سینیئر ممبران موجود ہیں، انہیں پارٹی ٹکٹ بھی دیا جاتا ہے اور اہم وزارتیں بھی، لیکن وزارتِ عظمیٰ کیوں نہیں؟
وزارت عظمیٰ جیسے اہم ترین عہدے کے لیے سیاسی سوجھ بوجھ، فہم و فراست اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت سیاسی میدان میں تجربے سے ہی آتی ہے، سیاست میں یا کسی بھی جمہوری ملک میں بڑی سیاسی جماعتوں میں ون مین شو نہیں چلتا، پارٹی پورے ایک جتھے اور ٹیم ورک میں کام کرتی ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ گراس روٹ سطح کی سیاست سے تجربہ حاصل کرنے والوں کو وزارتِ عظمیٰ نہیں دی جاتی، مگر پارٹی سربراہ ہی اس عہدے کے لیے موزوں ترین قرار پاتا ہے؟
آنے والے عام انتخابات میں کیا مسلم لیگ ن سے مریم نواز یا حمزہ شہباز وزیرِ اعظم کے لیے نامزد ہوں گے، اور پیپلز پارٹی سے بلاول بھٹو زرداری یا آصفہ بھٹوزرداری کو منتخب کیا جائے گا؟
اگر واقعی ایسا ہے تو یہ سیاسی اور جمہوری عمل قطعی طور پر نہیں ہوگا۔ ان تمام افراد میں وہ پختگی اور بردباری نہیں جو ان ہی کی جماعت کے دیگر سیننئر ترین ممبران میں موجود ہے۔
پڑھیے: قوم پرست سیاست اور انتخابات
ہندوستان کی مقبول ترین جماعت کانگریس پر نظر ڈالی جائے تو کانگریس سے نا تو سونیا گاندھی وزیرِ اعظم بن رہی ہیں نا ان کے بیٹے راہول اور بیٹی پریانکا۔ بی جے پی میں بھی موروثی سیاست نہیں ہے۔
نئے زمانے، نئے تقاضے اور نئے رجحان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بڑی سیاسی جماعتیں اگر وزارتِ عظمیٰ جیسے اہم ترین عہدے کے لیے پارٹی صدر یا پارٹی صدر کے بچوں کو نامزد کریں تو ان کی کارکردگی اور سیاسی پختگی کی بنیاد پر، شخصی بنیاد پر نہیں۔
ہمیں اپنی سیاست سے شخصیت پرستی کا بت توڑنا ہوگا اور عملی قدم اٹھانا ہوگا، ورنہ ترقی کی راہ میں ہم دیگر ملکوں سے مزید پیچھے رہ جائیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے تمام کارکنان اور سینئر ممبران پارٹی انتخابات منعقد کروانے کے لیے پارٹی قائدین پر زور ڈالیں، اور پارٹی قائدین اپنی سیاسی جماعتوں میں منصفانہ جمہوری روش اپنائیں تاکہ جمہوری عمل پر ایک عام آدمی کا اعتماد بحال ہو اور جمہوریت ہی اس ملک کا بہترین نظام تصور کیا جائے، نہ کہ نظام کی تبدیلی کا سوچنے پر مجبور ہوا جائے۔
رابعہ جمیل جیو نیوز میں اسائنمنٹ ایڈیٹر اور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: shabrabia@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔