نقطہ نظر

ضربِ عضب سے حاصل شدہ فوائد کیسے برقرار رہیں گے؟

آئیڈیاز 2016 میں غیر ملکی افواج کے وفد یہ جاننا چاہتے تھے کہ پاکستان ضربِ عضب میں کامیابی کیسے حاصل کر پایا ہے۔

آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی کے بعد دنیا بھر میں اس کی مثالیں دی جا رہی ہیں مگر اس آپریشن، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے پاکستان کے پاس کیا صلاحیت تھی، وہ ایئر چیف مارشل سہیل امان سے گزشتہ سال ستمبر میں ہونے والی بات چیت میں واضح ہوئی۔

وہ شہداء جنگ ستمبر کی یادگار کے افتتاح کے بعد ذرائع ابلاغ سے بات چیت کر رہے تھے۔ اس افتتاحی تقریب سے چند دن قبل ہی سہیل امان نے خود آگے بڑھ کر آپریشن ضربِ عضب میں حصہ لیا تھا اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو فضائی حملوں سے تباہ کیا تھا۔

ایئر چیف مارشل سہیل امان کا کہنا تھا کہ "آپریشن ضربِ عضب ایک ایسی جنگ ہے جس کا بطور فوجی نہ تو تجربہ تھا اور نہ ہی اس بارے میں آگاہی تھی۔

یہ ایک ایسی جنگ تھی جو کہ آپ کو کوئی نہیں سکھائے گا۔ اس جنگ کو لڑنے اور کامیاب بنانے کے لیے کسی نے ہمیں معاونت فراہم نہیں کی۔ اس جنگ کے لیے ہم نے خود ہی اپنے تجربات اور دانش سے حکمت عملی مرتب کی جو کہ کامیاب رہی۔"


میرے نزدیک آپریشن ضربِ عضب محض ایک فوجی آپریشن نہ تھا۔ فوج کو کسی دشمن کا علاقہ فتح کرنا تھا اور نہ ہی دشمن کو بھاری نقصان پہنچانا اس آپریشن کا مقصد تھا۔ بلکہ یہ آپریشن پاکستانی آبادیوں میں کیا جا رہا تھا۔ یہ مکمل جنگ ہوتے ہوئے بھی جنگ نہ تھی، مگر اہمیت میں جنگ سے بڑھ کر تھی جس میں سویلین آبادی میں چھپے ہوئے دہشتگردوں کا خاتمہ شامل تھا جو معصوم لوگوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔

آپریشن ضربِ عضب سے قبل پاکستان کی مسلح افواج دہشتگردی کے خلاف دیگر قبائلی ایجنسیوں کے علاوہ سال 2009 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات اور سوات کے علاقے میں آپریشن راہ راست انجام دے چکی تھیں.

ان دونوں ملٹری آپریشنز اور آپریشن ضرب عضب میں ایک قدر مشترک تھی، اور وہ یہ کہ آبادی کا متاثرہ علاقوں سے انخلاء، اور ان کا دہشت گردوں کے بجائے حکومت پاکستان اور مسلح افواج پر اپنا اعتماد ظاہر کرنا۔

آپریشن ضربِ عضب کو سرانجام دینے کے لیے ’ہول آف نیشن‘ تھیوری پر عمل کرتے ہوئے اس آپریشن کے لیے پوری قوم کو تیار کیا گیا۔ پاکستانی مسلح افواج کا سامنا کسی منظم فوج سے تو تھا نہیں اس لیے جنگ کے لیے نئی حکمت عملی وضع کی گئی جس میں دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کی تلاش، انہیں تباہ کرنا، علاقے سے جنگجوؤں کا خاتمہ، اور علاقے پر حکومتی عملداری قائم کرنا شامل تھا۔

آئیڈیاز 2016 میں آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے خصوصی بریفنگ رکھی گئی۔ ہال میں موجود زیادہ تر تعداد غیر ملکی مسلح افواج کے افسران کی تھی جو کہ پاکستان کے ضرب عضب میں تجربے کو سمجھنا اور اس کی کامیاب حکمت عملیوں کا راز معلوم کرنا چاہتے تھے۔

میں بھی اس بریفنگ میں موجود تھا۔ وہاں موجود ایک پاکستانی افسر کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں حکومت کی رٹ موجود نہ ہو۔ فوجی آپریشن کے دوران عارضی نقل مکانی کرنے والوں کی دیکھ بھال اور معاونت کرنے کے ساتھ ہر سطح پر مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون قائم کرنے، اور تباہ ہونے والے علاقوں کی تعمیر نو کے علاوہ تعلیمی اداروں، صحت کے مراکز، ہسپتالوں، سڑکوں اور دیگر انفرااسٹرکچر کا قیام بھی کیا جا رہا ہے۔

غیر رسمی گفتگو میں مذکورہ افسر سے پوچھا گیا کہ متاثرہ علاقوں میں شورش تھی یا خانہ جنگی، اس کو کیا نام دیں گے، تو ان کا کہنا تھا کہ دراندازی (Insurgency) یا شورش یہاں مناسب لفظ نہیں بلکہ درست لفظ دہشت گردی ہے، کیوں کہ وہ دہشتگرد ہیں اور وہ عام لوگوں کو مار کر اپنی دھاک بیٹھانا اور حکومت سے اپنی مرضی کی مراعات چاہتے تھے۔ ان کے پیچھے کوئی سیاسی تحریک یا سوچ نہیں تھی۔ آپریشن ضربِ عضب کے فوجی مرحلے کے خاتمے کے بعد اب اصلاحات اور سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ فاٹا اور قبائلی علاقوں میں سیاسی اصلاحات متعارف کروانے کے لیے حکومت کام کر رہی ہے۔

اس بریفنگ میں بہت سی باتیں کی گئیں جن میں سب سے اہم آپریشن کے بعد علاقے کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانا تھا۔ اس حوالے سے ان افسر کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان اپنے علاقوں میں تو اقدامات کر رہا ہے، مگر اس حوالے سے پاکستان اور افغانستان کو بعض مشترکہ اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔

اول: پاکستان سے افغان مہاجرین کی وطن واپسی

دوئم: افغانستان میں سیاسی استحکام اور امن و امان کا قیام

سوئم: افغان مسلح افواج کو اپنے زیرِ کنٹرول علاقے میں رٹ قائم کرنے لائق مستحکم کرنا

چہارم: پاک افغان سرحد پر بہتر انتظامات تاکہ دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں نہ کر سکیں

آئیں بریفنگ میں اٹھائے گئے ان چاروں نکات کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان پر کس حد تک عمل ہو پایا ہے۔

اول: افغان مہاجرین کی واپسی

یہ ایک نہایت پیچیدہ اور مشکل عمل ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں افغانوں کی دوسری نسل پاکستان میں جوان ہو رہی ہے اور وہ یہاں تعلیم اور دیگر سہولیات کی عادی ہو چکی ہے۔ اندازوں کے مطابق پاکستان میں 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین موجود ہیں جن میں سے نصف تعداد غیر رجسٹرڈ مہاجرین پر مشتمل ہے۔ اب تک صرف تین لاکھ کے قریب افغان مہاجرین اپنے علاقوں کو واپس لوٹ سکے ہیں۔

پڑھیے: آپریشن ضرب عضب اور چچا عبدل

افغان مہاجرین کے انخلاء کی سست روی کی وجہ سے ان افغان بستیوں میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے عناصر باآسانی جگہ بنا سکتے ہیں۔ اس عمل میں نہ صرف پاکستان اور افغانستان کی حکومت کو مل کر کام کرنا ہوگا، بلکہ امریکا اور اقوامِ عالم کے دیگر اداروں کو بھی پاکستان کا ساتھ دینا ہوگا۔

افغانستان میں ایسا ماحول بھی تشکیل دینا ہوگا کہ واپس جانے والے مہاجرین اپنے گھروں اور زمینوں کو دوبارہ آباد کرسکیں اور اپنے ان علاقوں میں رہ سکیں جہاں سے وہ چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔

دوئم: افغانستان میں سیاسی استحکام اور امن و امان

افغانستان کو سیاسی طور پر مضبوط کرنے سے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

افغانوں کو اپنے ہی ملک کے سیاسی ڈھانچے کا حصہ بنانے سے ان کی سوچ میں مثبت تبدیلی آئے گی اور ایسے مسلح گروپ نوجوانوں کو اپنی جانب راغب نہیں کرسکیں گے۔

افغان امن عمل میں گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کی شمولیت اور حکومت کا حصہ بننے سے مثبت نتائج کی توقع ہے۔ اس عمل سے کم از کم پاکستانی سرحد سے ملحقہ افغانستان کے پشتون علاقے کی عوام پاکستان کے بجائے کابل کی طرف دیکھنے لگی ہے۔

افغان امن عمل میں پشتونوں کی نمائندگی بھی بڑھ جائے گی۔ افغان جہاد اور اس کے بعد بھی گلبدین حکمت یار کے پاکستان کے ساتھ نہایت ہی دوستانہ مراسم رہے ہیں۔ اب یہی دوستانہ مراسم افغان حکومت میں موجود پاکستان مخالف قوتوں کو بھی کمزور کر سکیں گے۔ مگر یہ سیاسی عمل اس وقت اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔ اس عمل کو تقویت دینے کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کر رہا ہے، مگر خطے میں دیگر طاقتوں کے کردار اور سازشوں کے حوالے سے بھی افغان عوام اور حکومت کو چوکس رہنا ہوگا۔

سوئم: افغان مسلح افواج کو اس قدر مضبوط کرنا کہ وہ زیر کنٹرول علاقے میں رٹ قائم کرسکیں۔

افغانستان میں ایسے جنگجوؤں کی کمی نہیں ہے جو ہر طرح کا فوجی ہتھیار، ٹینک اور میزائل استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پہلے روس اور پھر امریکی مداخلت کے بعد افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری خانہ جنگی کے باعث فوج کا ادارہ مکمل تباہ ہو گیا ہے جسے دوبارہ تعمیر تو کیا جا رہا ہے مگر اس کے طور اطوار کسی جنگجو گروہ سے کچھ کم نہیں ہیں۔

افغانستان میں فوجیوں کو تربیت دی گئی تو وہ دیئے گیے اسلحے سمیت ہی فرار ہو گئے، اور دوبارہ سے جنگجو گروہوں میں شمولیت اختیار کرلی۔

پڑھیے: ضربِ عضب کے بعد

اس سال کے شروع میں نیٹو کے سربراہ جان کیمبل کا کہنا تھا کہ امریکی فوجیوں کی تعداد افغانستان میں کم کرنے سے افغان مسلح افواج کی صلاحیت میں کمی واقع ہوگی اور تربیت کے عمل کو نقصان پہنچے گا۔

افغانستان کی اس کمی کو دور کرنے کے لیے پاکستان متعدد بار افغان افواج کی تربیت میں معاونت کرنے کی پیشکش کر چکا ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اکتوبر 2010 میں نیٹو اجلاس میں یہ پیشکش کی تھی، اس کے بعد جنرل راحیل شریف نے 2014 میں افغانستان کے دورے کے موقع پر پیشکش کی. اس کے نتیجے میں چھے افغان افسران پاکستان ملٹری اکیڈمی سے تربیت مکمل کر چکے ہیں اور یہ عمل تاحال جاری ہے۔

افغانستان کی فوجی تربیت میں بھارت نے بھی بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا ہے۔ دو روایتی حریف ملکوں کی فوج سے تربیت کی وجہ سے افغان فوج میں باہمی تعاون کس قدر مشکل ہوگا یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مگر یہ بھی فوری طور پر حل ہونے والا معاملہ نہیں ہے۔ بہرحال پاکستان کی جانب سے افغان مسلح افواج کی تربیت مستقبل میں سرحد کے دونوں طرف کے حالات کو بہتر بنانے میں معاون ہوگی۔

چہارم: پاک افغان سرحد پر بہتر انتظامات

یہ عمل اس لیے ضروری ہے تاکہ دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں نہ کرسکیں۔ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ سرحد کا کبھی بھی تعین نہیں کیا جاسکا ہے۔ پاکستان کی سرحد کہاں سے ختم ہوتی ہے اور کہاں سے افغانستان شروع ہو جاتا ہے، یہ کسی کو پتہ ہی نہیں۔

پاکستان جب سے افغانستان میں اتحادی افواج کا شراکت دار بنا، اس وقت اتحادی افواج نے پاکستان کے اعتراضات پر دھیان نہیں دیا اور پاکستان کے ساتھ موجود سرحدوں کی مؤثر نگرانی کا کوئی نظام وضع نہیں کیا۔ ان قبائلی علاقوں کے محب وطن پشتونوں کی وجہ سے پاکستان کو کبھی بھی وہاں فوج رکھنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی تھی۔

فوج علاقے میں نہ ہونے کی وجہ سے جب جنگجو افغانستان سے پاکستان منتقل ہوئے تو وہاں انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔ اتحادی افواج نے جنگجوؤں کو گرفتار کرنے کے بجائے پاکستان میں داخل ہونے دیا۔ اگر اتحادی افواج جنگ سے قبل یا ابتدائی مرحلے میں ہی پاکستان کے سرحدی انتظامیہ کے ضابطے کو مان لیتی تو پاکستان کو دہشت گردی میں اتنا بڑا نقصان نہیں اٹھانا پڑتا۔

پاکستان نے جب بھی اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے، تب افغانستان کی طرف سے ایک سرحدی تنازع کھڑا کردیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی لندن کانفرنس میں جب پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد کے انتظام کی بات کی گئی اور اس پر زور دیا گیا تو اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے اس کی شدید مخالفت کی۔

رواں سال جون میں بھی جب پاکستان نے طورخم باڈر پر گیٹ لگانے کی کوشش کی تاکہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے افراد کی درست شناخت کی جاسکے تو اسی دوران افغانستان کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری شروع کر دی گئی، جس سے پاک افواج کے میجر علی جواد جاں بحق ہوگئے۔

پڑھیے: افغان پالیسی پر نظرِثانی وقت کی اہم ضرورت

پاکستان نے مئی 2016 میں افغانستان کے ساتھ سرحدی انتظامیہ کو بہتر بنانے کے لیے پالیسی وضع کی اور اس پر ملکی اور بیرونی دباؤ کے باوجود عمل بھی کیا۔ پاکستان کی جانب سے طورخم، چمن اور غلام خان کے باڈر کراسنگ پوائنٹس پر چوکیوں اور گیٹس کا بہتر انتظام کیا گیا۔ اس کے علاوہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والے قبائل کی آمد و رفت کے لیے بھی دستاویزات کی شرط بھی عائد کردی۔

سرحدی انتظامات بہتر بنانے کے لیے سرحد کے قریب باڑ، خندقوں کی کھدائی، چیک پوسٹوں کا قیام سرحد پر مسلسل نگرانی، اور دیگر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، مگر یہ تمام اقدامات صرف اور صرف پاکستان کی طرف سے کیے جا رہے ہیں جس وجہ سے سرحد پار دہشت گرد کسی بھی وقت دوبارہ منظم ہو کر پاکستان کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں۔ بریفنگ میں موجود آسٹریلوی مسلح افواج کے نمائندے نے پاکستان کے سرحدی انتظامات کو بہتر کرنے کے مطالبے اور تجویز کو درست قرار دیا۔

پاکستان آپریشن ضرب عضب کے ذریعے کامیابی سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرتے ہوئے اپنی سرزمین پر رٹ قائم کر چکا ہے۔ مگر اس رٹ کو برقرار رکھنے کے لیے افغانستان کا اہم کردار ہے، اور مذکورہ چار نکات پر عمل بھی افغانستان کے تعاون سے ممکن ہے۔

مگر افغانستان میں سرگرم بھارتی لابی کی جانب سے ان اقدامات کے خلاف سازشیں بھی نظر آ رہی ہیں جو سرحدی انتظامات کے عمل میں سب سے زیادہ رکاوٹیں پیدا کر رہی ہیں۔

جو بھی ہو، پاکستان کو سفارتی، فوجی اور عوامی سطح پر ان چاروں اقدامات پر عملدرآمد کے لیے افغان حکومت سے بات چیت کا عمل جاری رکھنا ہوگا، ورنہ ضربِ عضب سے حاصل ہونے والے قلیل مدتی فائدے طویل مدتی فائدوں میں تبدیل نہیں ہو پائیں گے.

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔