پاکستان

'پاکستان میں اچھے سول سرونٹس کی ضرورت نہیں'

حکومت عملی طور پر سی ایس ایس کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات و اصلاحات کرے، کالم نگار سعادت علی

اسلام آباد: کالم نگار اورسابق سی ایس پی افسر سید سعادت علی نے کہا کہ 70 کی دہائی کے بعد سول سروس کے معیار میں نمایاں کمی آئی جس کی وجہ سے اچھےامیدوار سامنے نہیں آرہے اورامتحان میں پاس ہونے کی شرح بھی کم ہو رہی ہے۔

سال 2016 میں سینٹرل سُپیریئرسروسز (سی ایس ایس) کے امتحان میں صرف 2 فیصد امیدواروں کے کامیاب ہونے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سید سعادت علی نے کہا کہ ملک میں تعلیمی معیار پرائیوٹ سیکٹر کے آنے کے بعد بہتر ہوا ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ سی ایس ایس کے لئے معیاری امیدوار کم ہو گئے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت عملی طور پر سی ایس ایس کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات و اصلاحات کرے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پرائیوٹ سیکٹر اس کی بنیادی وجہ ہے کہ امیدوار کیریئر کا انتخاب کرتے وقت سول سروس پر کارپوریٹ سیکٹر کو ترجیح دیتے ہیں۔

سید سعادت کے مطابق آج کل کی تیز رفتار زندگی میں ذہین اور قابل لوگ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے،اگر آپ سی سی ایس کرتے ہیں تو آپ کوایک سال امتحان کی تیاری، ایک سال کا وقت نتیجے سے امتحان تک اور اس کے بعد ایک سے دو سال ٹریننگ کے لئے درکار ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:سی ایس ایس امتحانات: 92 فیصد طلبہ ’انگریزی‘ میں فیل

انھوں نے کہا کہ اس عمل کے بعد سی ایس ایس کے ایک نئے ملازم کی عمر 28 سے 30 سال ہوتی ہے جب کہ کاپوریٹ سیکٹر میں اس عمر میں آپ ایک اچھے عہدے پر موجود ہوتے ہیں۔

سید سعادت نے مزید کہا کہ سوال یہ ہے کہ آپ کو بہت اچھے سول سرونٹ کیوں چاہئیں؟اچھے سول سرونٹس کی اہمیت انگریزوں کے دور میں تھی جب بیورو کریسی کی اہمیت تھی ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان جس طرح چل رہا ہے اس میں اچھے سول سرونٹس کی ضرورت نہیں ہے۔

اس کی بنیادی وجہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اچھے سول سرونٹنس خارجہ پالیسی بنانے کے لئے چاہیے ہوتے ہیں لیکن کیا آپ کی خارجہ پالیسی سول سرونٹس بناتے ہیں؟اسی طرح دیگر اہم امور میں بھی سول سرونٹس کو اہمیت نہیں دی جاتی۔

واضح رہے کہ گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ کو بتایا گیا تھا کہ سی ایس ایس میں صرف 2 اعشاریہ 9 فیصد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جب کہ 92 فیصد امیدوار انگریزی کے مضمون میں فیل ہوئے۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے نمائندوں کے مطابق رواں سال 9 ہزار 642 طالب علموں نے امتحانات میں حصہ لیا جس میں سے صرف 202 کامیاب ہوئے۔

کامیاب ہونے والے 114 امیدواروں کا تعلق پنجاب، 13 کا دیہی سندھ، 16 کا شہری سندھ،8 کا خیبر پختونخواہ، 4 کا بلوچستان،4 کا آزاد جموں و کشمیر اور ایک کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا۔