پاکستان، بھارت کو آبی تنازع جنوری تک حل کرنے کی مہلت
ورلڈ بینک نے سندھ طاس معاہدے پر غیر جانبدار ماہر کی تقرری روکتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کو آبی تنازع جنوری تک حل کرنے کی مہلت دے دی۔
ورلڈ بینک کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت نے آبی تنازع سندھ طاس معاہدے سے ہٹ کر حل کیا تو یہ معاہدہ غیر فعال ہوجائے گا۔
یاد رہے کہ ہندوستان کی جانب سے غیر جانبدار ماہر کا تقرر کرنے کی درخواست کی گئی تھی جبکہ پاکستان نے بھی چیئرمین عالمی ثالثی عدالت کے تقرر کی درخواست کی تھی۔
واضح رہے کہ ہندوستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کے حوالے سے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد پاکستان نے رواں برس جولائی میں عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
پانی و بجلی کے سیکریٹری محمد یونس ڈھاگا کی سربراہی میں 8 رکنی وفد پانی کے تنازع پر مذاکرات کے لیے ہندوستان گیا تھا، تاہم کوئی پیش رفت نہ ہوسکی تھی، پاکستان نے اسلام آباد سے ملحقہ علاقوں میں ہندوستان کے اہم ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کی تعمیر پر سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
مزید پڑھیں:سندھ طاس معاہدہ،عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ
تاہم اب ورلڈ بینک نے ہندوستان کی درخواست پر سندھ طاس معاہدے پر غیر جانبدار ماہر اور پاکستان کی درخواست پر چیئرمین ثالثی عدالت کی تقرری روکتے ہوئے پاکستان اور بھارت کو جنوری تک معاملات باہمی طور پر حل کرنے کی مہلت دی ہے۔
ورلڈ بینک گروپ کے صدر جم یانگ کنگ کے مطابق پاکستان اور بھارت آبی تنازع کو سندھ طاس معاہدے کے مطابق حل کریں، دونوں ملکوں کی معاہدے سے ہٹ کر متبادل حل کی کوشش کے نتیجے میں سندھ طاس معاہدہ غیر فعال ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے ورلڈ بینک نے پاکستان اور بھارت کے وزرائے خزانہ کو خطوط کے ذریعے آگاہ کردیا۔
وزارت خزانہ کے مطابق ورلڈ بینک کا خط پاکستان کو موصول ہوگیا، جس کے بعد وزارت پانی و بجلی کو معاملے کا جائزہ لینے کا کہا گیا اور وزارت پانی و بجلی نے انڈس واٹر کمشنر کو متنازع ڈیمز کا معاملہ بھارت کے ساتھ اٹھانے کی ہدایت کردی۔
واضح رہے کہ ہندوستان دریائے نیلم کے پانی پر 330 میگاواٹ کشن گنگا اور دریائے چناب کے پانی پر 850 میگا واٹ رتلے پن بجلی منصوبہ تعمیر کر رہا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں ستمبر 1960 میں ہوا تھا جس پر پاکستان کی جانب سے اس وقت کے صدر ایوب خان جبکہ ہندوستان کی جانب سے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے دستخط کیے تھے۔
اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے باہمی اصول طے کیے گئے اور یہ معاہدہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 1965 اور 1971 میں ہونے والی جنگوں کے باوجود بھی برقرار رہا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی ہندوستان جبکہ مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:’ہندوستان سندھ طاس معاہدہ منسوخ نہیں کرسکتا‘
تاہم رواں برس ستمبر میں ہونے والے اڑی حملے کے بعد سے ہندوستان وقتاً فوقتاً سندھ طاس معاہدے کی منسوخی اور پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکیاں دیتا آیا ہے۔
یاد رہے کہ 18 ستمبر کو کشمیر میں ہندوستانی فوجی مرکز پر حملے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کا الزام نئی دہلی کی جانب سے پاکستان پر عائد کیا گیا تھا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔
اس حملے کے بعد ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ انڈس واٹر کمیشن مذاکرات کو اُس وقت تک ملتوی کردیا جائے جب تک 'پاکستان، ہندوستان میں مداخلت بند نہیں کردیتا'۔
جس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کو پاکستان کے خلاف جنگ تصور کیا جائے گا۔
یہاں پڑھیں:پانی کی جنگ: پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ 'انڈس واٹر ٹریٹی دو ممالک کے درمیان سب سے کامیاب معاہدہ تصور کیا جاتا ہے، اس کی خلاف وزری کو پاکستان کے خلاف جنگ یا دشمنی تصور کیا جائے گا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر ہندوستان، پاکستان کی جانب آنے والے پانی کو روکنے کی کوشش کرے گا، تو نہ صرف انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی کرے گا بلکہ خطے کی ریاستوں کے لیے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ایک مثال قائم کرے گا، اس سے چین کے لیے ایک مثال قائم ہوگی کہ وہ دریائے برہما پوترا کا پانی روک لے'.
مزید پڑھیں: 'ہندوستان کے پانی کو پاکستان جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی'
دوسری جانب گذشتہ دنوں اس حوالے سے بھی رپورٹس سامنے آئیں کہ ہندوستان، پاکستان آنے والے تینوں دریاؤں پر نئے ہائیڈرو پاور پلانٹ بنانے جارہا ہے۔
گذشہ ماہ بھی ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک مرتبہ پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہندوستان سے تعلق رکھنے والے پانی کو کسی صورت پاکستان جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی'۔