ہم سے کہاں ہے پیار، خبر تمہیں پیاری ہے
گزشتہ دو دنوں میں ایک ہوائی حادثے نے ہمارے ہاں کی معاشرتی قطبیت کے سب پول کھول کر رکھ دیے ہیں۔ انسانی زندگی کے تمام معنی، مفہوم اور تقاضے ہم کہیں رکھ کر بھول چکے ہیں۔
مگر ہاں کسی کی موت پر ذاتی ایجنڈے کو تقویت دینے اور وقتی اور سستی شہرت حاصل کرنے کی خاطر تدفین سے پہلے اپنی پسند ناپسند کی ترویج کرنے کا فن ہمیں بخوبی آتا ہے۔
چترال سے اسلام آباد آنے والی پرواز پی۔کے 661 حویلیاں کے قریب پہاڑں کے درمیان گر کر تباہ ہوگئی۔ دو آسٹریلین اور ایک چینی باشندے سمیت 31 مرد، 9 خواتین اور دو شیرخوار بچوں کے علاوہ عملے کے پانچ اراکین اس بدقسمت طیارے میں سوار تھے۔
طیارے کو لگی آگ نے 47 ہنستی بستی انسانی زندگیاں راکھ کا ڈھیر بنا ڈالیں۔ اس غم کی گھڑی میں ہمارے ہاں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا جس قسم کی پولرائزیشن کا مظاہرہ کر رہی ہے، وہ میرے لیے نہ تو نیا ہے اور نہ ہی حیران کُن۔
پڑھیے: آج پورے پاکستان کا 'دل دل' رو رہا ہے
یہ سلسلہ سلمان تاثیر سے لے کر قندیل بلوچ اور پھر امجد صابری کے جنازے تک دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔ بد قسمتی سے جنید جمشید کا نام بھی اب اسی فہرست میں شامل ہو چکا ہے، لیکن باقی مسافروں کا کیا؟
ہر مسافر کے ساتھ نہ جانے کتنے رشتے، خواب اور ان گنت داستانیں جُڑی ہوں گی۔ نہ جانے کتنی آنکھیں خشک ہو کر بھی نہ ختم ہونے والے انتظار میں برستی رہیں گی۔
کئی گھنٹوں تک ٹی وی اور سوشل میڈیا نے جس طرح میرے دماغ پر جو مسلسل نقوش تراشے ہیں، اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے ایمان، جنت، دوزخ اور ہلاکت و شہادت کے "فٹنس سرٹیفکیٹ" پر قادر ہوچکے ہیں۔
ہم سول ایوی ایشن کے ماہر بھی ہیں اور کی بورڈز کے ذریعے ہوائی جہاز اڑانے کے علاوہ کسی کی بیویوں کی تعداد سے کردار کا جائزہ لینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
پڑھیے: پی آئی اے کا شمالی علاقوں پر قرضِ حسنہ
میڈیا ایئرہوسٹس عاصمہ عادل کی ڈیڑھ سالہ بچی کے منہ میں مائیک ٹھونس کر اس سے "مما مما" کہلوانے میں کامیاب رہا ہے جبکہ چار یا پانچ سال کے بیٹے سے "مما کھلونے لاتی ہیں؟" اگلوانے پر شاباش کا مستحق بھی ہے۔ فضائی میزبان کے شوہر سے، جو کہ ذہنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، سوال پوچھ رہے ہیں "آپ کی بیوی کِس سے زیادہ اٹیچڈ تھی؟"
طیارہ کریش ہونے اور جلنے کے اینیمیٹڈ مناظر مسلسل دکھانے والا نیوز چینل داد کا مستحق ہے جس نے اس حقیقت کو جانے بغیر کہ بلیک باکس کسی شوخ رنگ کا ہوتا ہے، ایک کالے رنگ کا باکس لہرا کر دکھا دیا اور جہاز کے کپتان کی کنٹرول روم سے آخری گفتگو تک سنوا دی ہے۔ اب ہماری بلا سے کہ ملنے والا بلیک باکس فرانس جا کر ڈی کوڈ ہو نہ ہو، صحافتی ذمہ داری تو ادا ہوئی۔
پڑھیے: "مجھے جنید جمشید کی آواز سے محبت ہوگئی تھی"
جہاں چترال میں بنے رَن وے کے لیے یہی طیارہ سب سے بہتر ہے، اور اس کا فٹنس سرٹیفکیٹ اکتوبر 2017 تک اے ون تھا، اور تین ماہ قبل وزیرِ اعظم پاکستان نے اسی طیارے سے سفر کیا، وہاں ایسے حقائق سے قطع نظر ہر نیوز اینکر اور "کی بورڈ گریبر" اپنی ماہرانہ تنقید و جائزہ ریکارڈ کروانے پر قادر ہے۔
اس جہاز میں اے ایس ایف کے دو نوجوان کمانڈوز بھی سوار تھے۔ ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ وڑائچ، اپنی اہلیہ اور ننھی بیٹی کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ طیارے کے کپتان محمد صالح یار جنجوعہ ایک یوٹیوب چینل بھی چلاتے تھے، جبکہ اپنی بیمار والدہ کی عیادت کو جانے والا ایک نوجوان مسافر بھی طیارے پر سوار تھا۔
لیکن ان سب اور دیگر مسافروں کی کہانیوں سے بھرپور زندگی کا تذکرہ کہیں پس پردہ رہ گیا ہے۔ ابھی فکر ہے تو یہ کہ جنید جمشید کو بطور پاپ اسٹار یاد کرنا ہے یا ان کے قصیدہ بردہ شریف سے انہیں خراج تحسین پیش کرنی ہے۔
ایسا شخص جو گلوکار تھا تو لاکھوں دلوں پر راج کرتا رہا، موسیقی اور انجینیئرنگ چھوڑ کر جب نعت خوانی اور تبلیغ کی جانب گیا، تب بھی لاکھوں چاہنے والے اس کی جانب کھنچتے چلے گئے۔ وہ ایک کامیاب بزنس مین تھے جنہوں نے پاکستانیوں کو بہترین برانڈڈ کُرتے شلوار کے ٹرینڈ سے متعارف کروایا۔
پانچ برسوں سے رمضان نشریات میں جلوہ گر بھی ہوئے۔ کراچی میں پانچ ہزار موٹرسائیکل ہیلمٹس بانٹے اور صفائی مہم کا حصہ بنے۔ بلاشبہ وہ ایک ٹرینڈ سیٹر تھے جن سے آپ نظریاتی و فکری اختلاف کرسکتے ہیں، مگر انہوں نے اپنی زندگی میں جو کچھ حاصل کیا، اس کا تمام نظریات سے تعلق رکھنے والے طبقات کی اکثریت صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔
اگر جنید جمشید اپنے ماضی سے نفرت نہیں کرتے تھے تو یہ کون لوگ ہیں جو ان کے لیے جنت کے حصول میں آسانی کے لیے شرائط رکھ رہے ہیں؟ انہوں نے تو 2013 میں "نیاپاکستان، انشاءاللہ" جیسا مِلی نغمی بھی گایا، تو کیا وہ بھی تلف کر دیا جائے؟
"دو پل کا جیون ہے" گیت کے بہت عرصے بعد نشر ہونے والا وائٹل سائنز کا "دل دل پاکستان" بی بی سی سروے میں دنیا کے دس بہترین گیتوں میں اگر تیسری جگہ نہ بھی بناتا تو بھی یہ ہمیشہ کے لیے پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ بن کر گونجتا رہے گا۔ اسی طرح "قسم اس وقت کی" ماہِ ستمبر میں چلتا رہے گا۔ نہ تو "گورے رنگ کا زمانہ" کبھی پرانا ہوگا اور نہ ہی "سانولی سلونی"۔
اپنی یاداشت سے ادھار مانگ کر میں شعیب منصور کی ہدایتکاری میں بنا منی ڈرامہ سیریل "دھندلے راستے" دہراتے ایک ایسے جنید جمشید کو یاد کر رہی ہوں جو پیانو بجاتے یہ گا رہا ہے کہ "مر بھی جاؤں تو مت رونا، میں اپنی آواز اور اپنے سارے گیت تمہیں دے جاؤں گا، یاد کرنا۔"
مجھے ذاتی طور پر جے جے کے نئے اوتار اور گاہے بگاہے عورت مخالف (misogynist) بیانات سے الجھن رہی ہے اور اس کا برملا اظہار بھی ہمیشہ سے کرتی رہی ہوں۔ دوستوں کے ساتھ مِل کر طنز اور ٹھٹھا بھی اڑایا لیکن جنید کی آواز میں چاہے "نہ تو آئے گی، نا ہی چین آئے گا" آن رپیٹ چلے یا پھر قصیدہ بردہ شریف اور چند پرسنل فیورٹ نعت میں، آواز کا تعلق اس شخص سے میٹھا ہی رہا۔
گھوڑے پر سوار ایک نوجوان جس کے خوبصورت بال ہوا میں اڑتے جا رہے تھے اور "تمہارا اور میرا نام جنگل میں" گا رہا تھا، شاید اس کے بدلے خیالات ذہنی طور پر قبول کرنا ممکن نہ ہو پایا مگر اس کھٹے میٹھے تعلق کا ایسا ناگہانی انجام تمام یادوں کو جھلسا گیا ہے۔
میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے لکھنے اور بولنے سے پہلے دل دل پاکستان کے لیے جھومنا سیکھا تھا۔ ہم جنید جمشید کی ٹرانسفارمیشن کے ساتھ عمر کے مختلف ادوار سے بھی گزرے۔ انہوں نے "آنکھوں کو آنکھوں نے جو سپنا د کھایا ہے" سے لے کر "مولا" اور "او صنماں" تک سولو گائیکی میں شہرت کی وہ بلندیاں دیکھی ہیں کہ واقعی "یہ شام پھر نہیں آئے گی۔"
پڑھیے: چترال کی ہر دلعزیز شخصیت، ڈپٹی کمشنر اسامہ وڑائچ کی یاد میں
افسوس کہ طیارے میں دیگر 46 جھلسی لاشوں کو بھلا کر سوشل میڈیا تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک کے نزدیک وہ شہید ہیں، دوسرا گروپ ایک "گستاخ" کی موت پر وحشی بنا رقصِ بسمل میں مصروف ہے۔ اگرچہ کہیں نام نہاد لبرلز بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جو آمرانہ رویہ اپنائے یہ جتلا رہے ہیں کہ ان کو صرف بطور گلوکار یاد رکھنا چاہیے اور دیگر لوگ بھی ایسا ہی کریں۔
تیسرا گروہ اپنے ہی سیاسی اور مسلکی ایجنڈے کی تشہیر کے لیے ایک سانحے کو استعمال کرتے ہوئے بے حسی کی آخری منزل سے بھی پانچ سو گز آگے کا سفر طے کرچکا ہے۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ جنید جمشید کسی کا باپ، بھائی اور شوہر بھی تھا۔ اس کے کاروبار سے کتنے لوگوں کا رزق وابستہ تھا، اور نہیں تو کم از کم یہی سوچ لیجیے۔
ہم مرنے والوں کے پسماندگان میں یتیم، بیوہ، والدین اور دوستوں پر ٹوٹی قیامت کا خیال نہیں کرسکتے کیوں کہ ہم سیاہ و سفید کے درمیان جینے کے عادی ہوچکے ہیں۔
ہر کسی نے اپنا ترازو اٹھا رکھا ہے اور اپنی مرضی کا پلڑا استعمال کرنا خود پر فرض کرلیا ہے۔ غم اور غصے میں فرق روا نہیں رکھتے لہٰذا اس کے اظہار کے ضابطوں پر لاحاصل بحث ہے اور مسلسل ہے جو ہر ناگہانی موت پر ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔
ایسے سانحات کا ٹھٹھا اڑانا یا ذاتی/سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا مردہ دِلی نہیں تو اور کیا ہے؟
افشاں مصعب اسلام آباد میں مقیم ہیں، زندگی پر لکھنا پسند کرتی ہیں، سیاست، سماجیات اور نفسیات ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ متعدد بلاگ پیجز پر ان کی تحاریر شائع ہو چکی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: AfshanMasab@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔