"مجھے جنید جمشید کی آواز سے محبت ہوگئی تھی"
جنید جمشید ایک سے زیادہ انداز میں نمایاں ثقافتی شخصیت تھے۔ تین دہائیوں پر مشتمل ان کے موسیقی اور مذہبی کریئر نے بے شمار لوگوں کو متاثر کیا۔ ہر کسی کی زندگی میں ان کی کسی نہ کسی طرح سے اہمیت تھی۔
جنید جمشید آپ کے لیے کیا معنیٰ رکھتے تھے؟ ان کو اپنا خراجِ تحسین ہمیں blog@dawn.com پر ای میل کریں۔
ایاز خان دہلوی
"ایک شخص اس دنیا سے دور ہو کر اپنے رب سے مل گیا اور اپنی یادیں چاہے وہ موسیقی کی صنف میں ہوں یا حمدو نعت، منقبت اہل بیت کی صورت میں ہوں، ہمارے پاس چھوڑ گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنید جمشید کی وہ سوچ اور فکر جو قابل عمل ہو اس کو پھیلایا جائے اور تمام طبقات میں ان خیالات کو روشناس کر وایا جائے تا کہ معاشرے سے تعصب اور فرقہ بندی کا عمل مفقود ہوسکے۔"
محمد وسیم
"2007 کی بات ہے، ڈگری کی محمدی مسجد غریب آباد میں جنید بھائی کا بیان تھا، میں ان کے ساتھ ایسے بیٹھا تھا جیسے کوئی پرانا دوست ہو پھر میں نے ہاتھ ملایا انہوں نے گلے لگا لیا اور کہا کہ تم نوجوان سرمایا ہو۔
اسی دن مغرب کا بیان تھا، میرپورخاص مرکز میں عشاء کے بعد مرکز میں ساتھ بیٹھے تو میں نے اُن کی مکمل زندگی کا احوال لیا، انہوں نے آخری بات یہ کہی کہ وسیم بھائی نرم بستر، AC والا کمرا نیند کی گولی کھا کر بھی نیند نہیں آتی تھی اب اس فرش پر نیند آ رہی ہے۔"
رسول سلام
"مجھے جنید جشمید سے گیتوں سے گہرا لگاؤ تھا، جند بھائی سے ملنے کا جیسے جنون سوار تھا، وہ دن بہت خوبصورت اور حیران کن تھا جب دل کی مراد پوری ہوئی اور جنید جمشید لاہور میں ماڈل ٹائون جی بلاک کی مسجد میں تبلیغ کی غرض سے تشریف لائے اور میری خواہش پوری ہوئی۔ بہت پیارا احساس تھا، سامنے بیٹھ کر باتیں سنی اور رات گئے تک ان کا ساتھ میسر آیا، رات ان کے کہنے پر مسجد میں قیام کیا اور تبلیغ کے ایک قافلے میں شرکت کا ارادہ کیا۔"
سبوخ سید, صحافی و اینکر پرسن
جنید جمشید سے آخری بات اس رات ہوئی تھی جب ان پر اسلام آباد ایئر پورٹ پہ کچھ لوگوں نے حملہ کیا تھا۔ رات گئے ان کی دوبارہ کال آئی کہ میں کوئی مقدمہ نہیں کرنا چاہتا، اللہ کیلئے انہیں معاف کیا۔ کاش ہم لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھ سکیں۔
یہ سبق ہے جنید جمشید کی زندگی کا اور یہ ہی ہمارے لئے کافی ہے۔ ایک مضطرب مسافر پرسکون سفر پہ روانہ ہوگیا۔
الوداع جنید جمشید
آفتاب عالم
یہ 2006 کی بات ہے جب رائیونڈ کے تبلیغی مرکز کے باہر میری ملاقات پاکستان کے دو سپرسٹارز جنید جمشید اور محمد یوسف سے ہوئی۔ جنید جمشید اپنی گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے، جبکہ محمد یوسف ایک بزرگ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں سڑک پار کروا رہے تھے۔
میں نےجنید بھائی کو پہچان لیا اور سلام کرنے کے لیے آگےبڑھا جس کے بعد اور لوگ بھی ملاقات کے لیے آنے لگے اور ایک ہجوم سا لگ گیا۔ گاڑی میں بیٹھا ایک بچہ (جو غالباّ جنید جمشید کا بیٹا تھا) اس بڑھتے ہجوم کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔ شاید لوگوں کی اس قدردانی پر مسکرا رہا تھا جو لوگ انہِیں دے رہے تھے۔
میں دل میں ایک عجیب سی خوشی محسوس کر رہا تھا جو شاید ہر اس شخص کے دل میں پیدا ہوجاتی ہے جس نے ایسی مشہور شخصیات کو آج تک صرف ٹی وی اسکرین پر ہی دیکھا ہو اور قسمت سے آج براہِ راست اتنے قریب سے دیکھ رہا ہو۔
جنید بھائی سے پل بھر کی یہ ملاقات میری زندگی کا ایک قیمتی اثاثہ ہے جو کل سےمجھے رہ رہ کر یاد آ رہی ہے۔ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین
محمد فیصل محمود
جب مجھے جنید بھائی کے انتقال کی خبر ملی تو میرے پاؤں سے جیسے زمین نکل گئی ہو اور میں چند سیکنڈز تک ساکت ہوگیا۔ جنید بھائی سے میرا تعلق تقریباً دو سال سے تبلیغ کی وجہ سے تھا۔ دو ہفتے پہلے جنید بھائی کے ساتھ فیملیز جماعت (مستورات کی تبلیغی جماعت) کے ساتھ جانے کا پکا ارادہ بن چکا تھا اور چترال سے واپسی پر مجھے اپنی اہلیہ کے ساتھ جنید بھائی اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ملنا تھا۔
میں اور میری بیوی اسی تیاری میں مصروف تھے کہ دل کو تار تار کردینے والی اس خبر نے میرے کانوں کو آ چھوا۔ جنید بھائی سے میری آخری بات ان کے اسلام آباد آنے سے ایک دن پہلے عشاء کے بعد فون پر ہوئی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یا شیخ (وہ مجھے پیار سے یا شیخ کہتے تھے) بس دعا کرو دل بدل جائے، وہ والا دل جو اللہ چاہتا ہے، اور میں آرہا ہوں۔ پھر ایک شخص کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ان سے مشورہ کرلیں گے۔ میرا جواب تھا کہ جی ضرور جنید بھائی، ہم تو شدت سے انتظار میں ہیں کہ آپ فوراً سے آ جائیں، لیکن ۔۔۔
فاطمہ بلال
حج کے سفر میں جنید جمشید کا کیمپ ہمارے کیمپ کے ساتھ ہی تھا۔ جب مجھے حادثے کا پتہ چلا اور یہ معلوم ہوا کہ جنید جمشید اس طیارے میں موجود تھے تو میں بہت صدمے میں چلی گئی۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ سب منیٰ کے مناظر گھوم گئے۔ حج کے دوران میں اپنے کیمپ سے نکلی تو جنید جمشید اپنے ساتھیوں کے ساتھ سامنے تھے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے گرد جمع ہوگئی تھی۔ وہ بہت خوش اخلاقی سے سب سے مل رہے تھے، میرے شوہر نے بھی ان سے ملاقات کی اور انہوں نے دعا دی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے۔
صوفیہ کاشف
اسکول کی ساتویں کلاس میں ہم چار نوعمر بچیاں بریک کے دوران اسکول کی آخری کرسیوں پر جا کر اپنا میوزک میزوں پر بجاتی تھیں اور گاتی تھیں "میرا دل نہیں اویلیبل" اور میں جنید جمشید کے انداز میں گھومتی تھی کیوں کہ میں اس گروپ کی جنید جمشید تھی۔ اس وقت موسیقی کا ہیرو جنید جمشید تھا۔
پھر زندگی بدل گئی، داڑھی، لمبا کرتہ اور اونچا پاجامہ، اور ہم نے سوچا کہ کیسا بندہ ہے، جن چیزوں کے لیے لوگ مرے جا رہے ہیں انہیں ترک کرنے چلا ہے۔ لگا کہ ایک خوبصورت آواز اور ہستی کہیں غائب ہو جائے گی۔
جنید جمشید ڈوبا، پھر ابھرا، اور پھر ایسا ابھرا کہ کتنے ہی گلیمر کو پیچھے چھوڑ گیا۔ شروع کے دنوں میں لیکچر میں ان کی آواز اٹکتی تھی، فقرے کم پڑتے تھے، پھر لفظوں میں روانی اور آواز میں تاثیر گھلنے لگی۔
پھر جب میری بیٹی دو تین سال کی تھی تو میرے گھر اونچی آواز میں جلوہ جاناں چلتا تھا اور میں اور میری بیٹی ساتھ ساتھ پڑھتی تھی۔ جنید جمشید سے میری بیٹی نے قصیدہ بردہ شریف سیکھا۔
جنید جمشید ایک زندگی کا قیمتی رخ تھے، اک نسل ان کے ساتھ ان کو دیکھتے ان کو سیکھتے ان کے ساتھ چلی ہے، چند لفظوں چند نقطوں اور چند سطور میں کوئی کیسے اس نقصان کا احاطہ کر لے جو چند لمحوں میں اس نسل کا ہو گیا؟
ونے رادھا کرشن
’’اکثر انڈینز کی طرح، میں نے جنید جمشید اور وائٹل سائنز کے گانے یوٹیوب پر پاکستانی پاپ کی بے مقصد تلاش کے دوران سنے۔ اس سے پہلے میں کوک اسٹوڈیو اور چند دیگر بہترین ہم عصر بینڈز کو سن رہا تھا۔ مگر جب وائٹل سائن سننے کا اتفاق ہوا، جو پہلے تو مجھے مایوس کن طور پر سریلی آوازوں اور عام بول سے آراستہ ایک پرانے فیشن کا ایک بینڈ سا محسوس ہوا۔
میری مایوسی کا اصل تعلق شاید اس بات سے تھا کہ میں اپنے کھوئے ہوئے پیار کا رنج دور ماضی میں کہیں چھوڑ آ چکا تھا اور شادی شدہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا بھی کر چکا تھا۔ مگر جیسے ہی اس مدھر آواز نے محبت کے خیال کے سروں کو چھیڑا تب میں نے اسے سننا شروع کیا اور وہ لمحات یاد آئے جب میرے لیے موسیقی اور محبت سب سے زیادہ معنی رکھتے تھے۔ وہ کون تھی، اعتبار اور تم دور تھے، جیسے گیتوں نے اس قدر سچائی سے ٹوٹے دل کے غم کی ترجمانی کی تھی کہ میں اپنے غم کو یاد کر بیٹھا۔
اپنے فن کے عروج پر ہونے کے باوجود انہوں نے اس فن کو پیچھے چھوڑ دیا اور مذہب میں سکون پایا۔ جس طرح کے گیت مجھے پسند ہیں وہ اب ایسے گیت نہیں گاتے تھے، مگر اس شخص کے گانے ہمیشہ سنتا رہا۔ اور اس کے ساتھ یہ امید بھی رہی کہ ایک دن یہ بینڈ ایک بار پھر جڑ جائے گا اور ایک بار پھر یہ بینڈ وہ پرانے گانے گائے گا۔ اب ہمارے پاس چند یادیں اور گانے ہی باقی بچے ہیں جو کہ میرے لڑکپن کے پسندیدہ گانوں کی فہرست میں شمار رہیں گے۔‘‘
شوا چاؤلاگائے
’میں نیپالی ہوں، اور اس وقت سعودی عرب میں مقیم ہوں۔ میں ان کا ملی نغمہ دل دل پاکستان ہزاروں بار سن چکا ہوں، مگر مجھے ایک طویل عرصے تک یہ معلوم ہی نہ تھا کہ یہ کس گلوکار کا نغمہ ہے! کل جب میں نے ان کی موت کی افسوسناک خبر سنی تب پتہ چلا کہ یہ گیت جنید جمشید نے گایا تھا۔ ایک بار پھر اس گانے کو سن رہا ہوں۔ ان کی آواز بہت ہی منفرد تھی اور میں ان کی موت پر انتہائی افسردہ ہوں۔‘‘
رفاقت نعمان
آج سے تقریباََ تیرہ سال پہلے میں اپنی سائیکل میں ہوا بھروانے کے لیے ڈیفنس گذری کے پیٹرول پمپ پر کھڑا تھا کہ جنید جمشید وہاں اپنی گاڑی میں آئے اور میرے سامنے آکر رُک گئے۔ اُن کے ساتھ ان کی پہلی بیوی فرنٹ سیٹ پر اور بچّے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ٹائر میں ہوا بھرنے کے لیے اترے، اور مجھ سے کہنے لگے کہ جب ٹائر میں ہوا کا پریشر تیس ہو جائے تو بتانا۔ میری میٹر پر نظر نہیں پڑی اور میں نے اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کر دیا تو جنید جمشید نے میری رہنمائی کی اور بتایا کہ میٹر کہاں ہے۔ میں نے ٹائروں میں ہوا بھروانے میں ان کی مدد کی، ساتھ ساتھ وہ اپنی بیوی اور بچوں سے باتیں بھی کرتے رہے۔
نادیہ ایچ صادق
"جس لمحے میں نے سانحے کی خبر سنی، اور یہ سنا کہ جنید جمشید بھی بدقسمت طیارے کے مسافروں میں سے تھے، تو میرے لیے یہ ناقابلِ یقین تھا۔ میری جنید جمشید سے ملاقات 8 ماہ قبل لاہور سے کراچی کی فلائٹ میں ہوئی تھی، یہ میرے لیے ایک یادگار لمحہ تھا۔ میں دل دل پاکستان کے دنوں سے ان کی پرستار ہوں اور ان میں آنے والی تبدیلی کو قریب سے دیکھا ہے۔ میں انہیں تب بھی پسند کرتی تھی اور اب بھی پسند کرتی ہوں۔ میں ان سے بات کرنا چاہتی تھی اور بتانا چاہتی تھی کہ میں ان کی کتنی بڑی مداح ہوں، مگر بدقسمتی سے میں ہمت جمع نہیں کر پائی۔ میں صرف اتنا کر سکی کہ فلائٹ لینڈ کرنے سے قبل میں نے انہیں آٹوگراف کے لیے اپنا بورڈنگ پاس دیا، جس پر انہوں نے میرے لیے لکھا، "فکرِ آخرت کو بڑھائیں، دعاگو، جنید جمشید۔"
وقاص احمد
یہ سال 1990 کی بات یا پھر 1991 کی، جب میں ایک ’ورائٹی شو‘ (ان دنوں میں ایسی سرگرمیاں ہوتی تھیں) میں موجود تھا۔ اپنی گلوکاری کا مظاہرہ کرنے والوں میں وائٹل بینڈ بھی تھا اور اپنے ایکٹ کے بعد انہوں نے دل دل پاکستان گانا شروع کیا اور تمام بچوں کو اسٹیج پر بلایا۔ باقی بچوں کی طرح میں نے بھی اسٹیج کی جانب دوڑ لگا دی مگر بہت چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس اونچے اسٹیج کے اوپر چڑھ نہ پایا۔ اسٹیج پر چڑھنے کی اپنی جدوجہد کو جاری رکھا اچانک کسی نے اپنے ہاتھوں سے مجھ پکڑ کر اوپر کھینچ لیا۔ وہ جنید جمشید تھے! انہوں نے مجھے اپنی گود میں اٹھایا اور گیت گانا شروع کر دیا۔ میرے ماضی کی یادوں میں سے یہ ایک سب سے بہترین یاد ہے۔ ان کا شفقت بھرا یہ چھوٹا عمل میں کبھی فراموش نہیں کر پاؤں گا۔
کاشف
"لوگ ان سے محبت کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ 1995 یا 96 میں یومِ آزادی کی تقریبات کے لیے واشنگٹن ڈی سی آئے تھے۔ ہم سب یادگارِ واشنگٹن کے گرد جمع تھے اور میزبان نے اعلان کیا کہ وائٹل سائنز کچھ دیر قبل لاس اینجلس سے نکل چکے ہیں، اور دو سے تین گھنٹے میں واشنگٹن پہنچیں گے۔ وہاں تقریباً 6 سے 8 ہزار لوگ تھے۔ جنید اپنے بینڈ کے ساتھ شام گئے پہنچے، اور وہ کیا ہی یادگار پرفارمنس تھی۔"
ممتاز حسین، ٹیچر
یہ سال ہمیں کافی دکھ دے گیا۔ کچھ سال قبل دسمبر میں آرمی پبلک اسکول کا سانحہ اور اب جہاز کا حادثہ، دسمبر ہمیں پھر غمگین کر گیا۔ ہردلعزیز شخصیات امجد صابری، عبدالستار ایدھی، جنید جمشید ہم سے بچھڑ گئے، یقین نہ آنے والے سانحات گزرے ہیں۔ تینوں شخصیات اپنے جانے کے بعد سب کو اُداس کر گئیں لیکن حقیقت میں اپنا نام زندہ کر کے گئیں۔
زوہیب احمد
جنید بھائی سے ملنے کی ہمیشہ خواہش رہی۔ انہیں ہمیشہ ٹی وی پر دیکھا اور انہیں اپنا آئیڈیل سمجھا۔ ان کی سادگی، ان کا اندازِ گفتگو، ان کا تبدیل ہونا، سب بہت اچھا لگا۔ دعا ہے کہ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ وہ ایک سچے پاکستانی تھے اور ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہیں گے۔
توصیف شیخ، سابق موسیقار
’’میں انہیں ذاتی طور پر جانتا تھا کیونکہ لاہور میں ان کے کنسرٹ کا آغاز اکثر میں ہی کرتا تھا۔ مجھے ان کی موت کا انتہائی افسوس ہے اور میرے لیے یہ یقین کر پانا بھی بہت مشکل ہے کہ میری رہنمائی کے لیے اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔"
ماروی مسعود
’’میرا بھائی شاید دو سال کا ہوگا جب اس نے گانا سانولی سلونی سی محبوبہ سنا۔ اتنی کم عمر بھی اسے موسیقی سننا پسند تھا۔ میرے والدین نے اسے کیسٹ لا کر دی اور وہ ہر روز اسے سنتا۔ بدقسمتی سے ایک سال بعد وفات کر گیا۔ کل جب میرے والدین نے جنید جمشید کی موت کی خبر سنی تو ان کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ ان کی اس جادوئی آواز کو یاد کرنے لگے کہ جس کے سریلے پن میں بہہ کر ایک ننہا پچہ بھی اس آواز کے ساتھ گنگنانے لگتا تھا۔‘‘
فیصل ریاض
’’ایک دفعہ جنید جمشید تبلیغ کے سلسلے میں اسلام آباد ایف-10 کے مرکز میں آئے ہوئے تھے۔ مجھے اس مسجد کا پتہ چلا جہاں وہ دیگر کئی کرکٹرز کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے سو میں نے اس نفیس شخص، جسے میں سنتے ہوئے بڑا ہوا ہوں، سے ملنے کے لیے وہاں جانے کا فیصلہ کر لیا۔
میں اسکول کے ایک ساتھی کے ساتھ وہاں پہنچا۔ میں نے اس رات جنید جمشید کو پہلی بار اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔ میں نے اپنے اندر تھوڑی ہمت پیدا کی اور فوراً ان کے پاس جا کر کہا، ’جنید بھائی آپ کا ٹائم چاہیے۔‘
وہ مسکرائے اور ہم سے ہاتھ ملایا، پھر کلائی پکڑ کہنے لگے، ’’آپ کے لیے ٹائم ہی ٹائم ہے۔‘‘ اور ہمیں مسجد کے اندر لے گئے۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ کہہ یا سن پاتے، انہوں نے ہمیں کھانے کا پوچھا۔
ہم ان کی اس قدر سادگی اور فیاضی دیکھ کر واقعی بہت متاثر ہوئے۔ آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر وہ ہمیں خلوص دل سے یاد رہیں گے۔ خدا ان کی روح کو اپنی امان میں رکھے!''
شجیع الرحمان، طالبِ علم
"یہ عجیب بات ہے کہ کل رات ہم کہیں آئسکریم کھا رہے تھے، اور کاؤنٹر پر پوسٹر لگا ہوا تھا کہ "جنید جمشید کانفرنس کے سلسلے میں 14 جنوری 2017 کو مانچسٹر کے نواب ریسٹورنٹ آئیں گے" اور 12 گھنٹے سے بھی کم وقت میں اس دوپہر ہم فضائی حادثے اور ان کی اس طیارے میں موجودگی کی افسوسناک خبر سن رہے ہیں۔ جنید جمشید کو ہمیشہ وائٹل سائنز کے مرکزی گلوکار کے طور پر یاد رکھوں گا، جسے سنتے ہوئے ہم سب بڑے ہوئے۔ دعا ہے کہ انہیں اور حادثے میں ہلاک ہونے والے تمام دیگر افراد کو ابدی سکون نصیب ہو۔"
نگم ارشد
میں نے اپنی زندگی میں جو پہلا میوزک البم خریدا تھا وہ وائٹل سائنز کا تھا۔ مجھے دھندلا دھندلا یاد ہے کہ میں نے اس پر اپنی جیب خرچ میں سے 35 روپے خرچ کیے تھے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ میں نے ان کے تمام البمز خرید لیے تھے۔
جب کبھی بھی شعیب منصور کی ڈائریکشن میں بنا کوئی سنگل، البم یا ویڈیو ریلیز ہوتی تھی تو وہ کسی انعام سے کم نہ ہوتی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج بھی ان کے گیت مجھے یاد ہیں اور میرے دل کے قریب ہیں۔ جب وائٹل سائنز بینڈ ٹوٹ گیا اور جنید جمشید سولو گلوگار بن گئے تب بھی ان کی موسیقی میرا دل لبھاتی رہی۔
طیارہ حادثے میں ان کی اچانک موت نے مجھے کئی خوشگوار یادوں میں دھکیل دیا ہے۔ غم اور یادِ ماضی، خدا جنید جمشید کو اپنی امان میں رکھے۔‘‘
جنید جمشید ایک سے زیادہ انداز میں نمایاں ثقافتی شخصیت تھے۔ تین دہائیوں پر مشتمل ان کے موسیقی اور مذہبی کریئر نے بے شمار لوگوں کو متاثر کیا۔ ہر کسی کی زندگی میں ان کی کسی نہ کسی طرح سے اہمیت تھی۔
جنید جمشید آپ کے لیے کیا معنیٰ رکھتے تھے؟ ان کو اپنا خراجِ تحسین ہمیں blog@dawn.com پر ای میل کریں۔