چترال کی ہر دلعزیز شخصیت، ڈپٹی کمشنر اسامہ وڑائچ کی یاد میں
چترال کے لوگوں کی ہر دل عزیز شخصیت اسامہ، اپنی اہلیہ اور اپنے واحد بچے کے ساتھ حویلیاں کے قریب طیارہ پے کے 661 کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ سول سروس کی 32 کامن بیچ سے تعلق رکھنے والے ان کے بڑے بھائی سعد احمد وڑائچ اس وقت فارن سروسز میں کام کر رہے ہیں اور امریکا میں تعینات ہیں۔
اسامہ احمد وڑائچ، ڈپٹی کمشنر چترال سے ہماری پہلی ملاقات 26 نومبر 2015 کو رات ساڑھے 8 بجے ان کے دفتر میں ہوئی۔ ہم سے گفتگو کرتے وقت انہوں نے 26 اکتوبر کے زلزلہ متاثرین کے لیے دو دو لاکھ روپے کے امدادی چیکس پر دستخط کا سلسلہ جاری رکھا۔
37 کامن کے اس نوجوان ڈی ایم جی افسر اسامہ نے سول سروسز اکیڈمی سے 2010 میں گریجوئیشن کی۔ انہوں نے خیبر پختونخواہ سول سروس کور کو بطور اسسٹنٹ کمشنر ایبٹ آباد جوائن کیا، جس کے بعد آگے جا کر انہوں نے اے ڈی سی پشاور کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دیں اور پھر 2015 میں چترال کے ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر تعینات ہوئے۔
ایبٹ آباد کے مقامی لوگوں کو وہ اسامہ اب بھی یاد ہیں جو اپنے ماموں ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ (ریٹائرڈ) کو شاہراہِ قراقرم کے ساتھ موجود تجاوزات کو ختم کرنے کے جرات مندانہ اقدامات کی وجہ سے اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے۔
وہ چترال آنے والے لوگوں کو دو سو بیڈ پر مشتمل سول ہسپتال چترال، جو کہ 1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں تعمیر ہوا اور اس کے بعد سے خستہ حالی کا شکار رہا، کی بحالی میں مدد کے لیے درخواست کرتے۔
ہسپتال کی بحالی کے لیے ان کا مؤقف تھا کہ یہاں سے غریب مریضوں کو علاج کے لیے پشاور یا اسلام آباد پہنچنے کے لیے 15 سے 20 گھنٹوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔
سول ہسپتال کے لیے مطلوب بنیادی میڈیکل سازو سامان کی ان کی جانب سے ترتیب دی گئی ایک فہرست اب بھی میری ای میل پر موجود ہے۔ اس سارے ساز و سامان کی قیمت 1 کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ نہیں ہے۔