پی آئی اے کا شمالی علاقوں پر قرضِ حسنہ
ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ مریض کو جتنا جلدی ہو سکے پنڈی لے جایا جائے۔ بیماری قابلِ علاج تھی مگر وقت کم تھا۔
میرے دادا کو ہر کام جلدی کرنے کی عادت تھی۔ وہ فلائٹ جو گیارہ بجے ہونی تھی اس کے لیے وہ ساڑھے چھے بجے پوتے پوتیوں سمیت ایئر پورٹ پہنچ گئے تھے۔
اس دن ایئر پورٹ پر اور بہت سارے لوگ بھی تھے جنہیں لازماً پنڈی پہنچنا تھا۔ چھٹی پر جاتے فوجی جن کی چھٹی کے دنوں کا شمار راستہ طویل ہونے کی وجہ سے اپنے گاؤں کی دہلیز پر داخل ہونے سے ہوتا تھا۔
کالج جاتے نوجوان جنہیں اپنی داخلے کی فیس جمع کروانی تھی۔ چھٹی پر آئے سیاح جن کی نوکریوں پر زمانے بھر کی فکریں ان کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھیں۔
دل کے دو مریض جن کی سانسوں کی گنتی کا انحصار پی آئی اے کی پرواز کے ساتھ تھا، اور ایک میری دادی، جنہیں ہر حال میں اس مشین پر موجود ہونا تھا جو ان کے خون میں موجود فاسد مواد صاف کر سکے۔
اس دن ایئر پورٹ پر سب کی امیدوں کا مرکز جہاز کا وہ پائلٹ تھا جس کا نام تو خدا جانے کیا تھا، مگر جسے سب منو بھائی کے نام سے پکارتے تھے۔
فضا میں خاصی خنکی تھی اور دور کچورا جھیل کی حفاظت پر کھڑے پہاڑوں پر سفیدے کی ایک لکیر موجود تھی جو سردیوں کی کسی گزری شام اس کی چوٹی پر اتری تھی۔
سب جانتے تھے کہ بوئنگ 737 صرف اچھے موسموں کا طوطا چشم ساتھی ہے، مگر پھر بھی سب ہی کو منو بھائی پر پورا یقین تھا۔ "یہ پائلٹ تو وہ ہے جو گرتی برف میں بھی جہاز اتار لیتا ہے"، دادی کی رخصتی پر آئے کسی ملاقاتی نے ہم سب کو تسلی دی۔
پڑھیے: پاکستان کی قومی ایئرلائن سفر کے لیے کتنی محفوظ؟
ایک بار، اور پھر دوسری بار فلائٹ کا وقت تبدیل ہوا۔ دوپہر کے ایک بجے کے قریب فلائٹ کینسل ہوگئی۔ میری دادی جو اپنے قدموں سے چل کر ایئر پورٹ گئی تھیں، کچھ کہے سنے بغیر بستر پر جا کر لیٹ گئیں۔ چند دن بعد وہ بوئنگ سے روٹھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔
دادا جنہوں نے زندگی کا ایک دن بھی ان کے بغیر نہیں گزارا تھا، ایک سال سے زیادہ نہ جی سکے اور یوں میرے ڈھیر سارے چاچاؤں اور پھوپھیوں کے بالوں میں یک لخت وہ سفیدی اتر آئی جو اس صبح اسکردو کے پہاڑوں پر تھی۔
کل چترال والی اے ٹی آر فلائٹ کا حادثہ ہو گیا تو میں نے سوشل میڈیا پر بہت سارے لوگوں کے تبصرے سنے کہ "اس روٹ پر جہاز چلائے ہی کیوں جاتے ہیں، پی آئی اے پر پابندی کیوں نہیں لگا دی جاتی"۔
اپنے آرامدہ صوفوں میں بیٹھے غصے میں بھرے لوگوں کو اپنا سارا غصہ ماہرین کی جانب سے محفوظ قرار دیے گئے اے ٹی آر جہازوں پر اتارتے دیکھ کر میرے ذہن میں اسکردو کو وہ صبح آ گئی۔ ویسے بھی کہتے ہیں کہ ایک عمر کے بعد ناسٹیلجیا ہی آپ کا سب سے مستقل رفیق ہوتا ہے۔
اے ٹی آر کا حادثہ ایک المناک حادثہ ہے جس نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا۔ چترال کے کمشنر بھی، جن کی جواں سال موت کا دکھ میں نے اپنے ان دوستوں سے سنا جو ان سے ذاتی طور پر واقف تھے۔
جنید جمشید، جو ہر لحاظ سے ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ دل دل پاکستان کے گلوکار کی حیثیت سے بھی، لمبی داڑھی والے مبلغ کی حیثیت سے بھی، اور ٹی وی کے ایک ہوسٹ کی حیثیت سے بھی۔ انہوں نے بہت ساری شہرت سمیٹی، تھوڑی بہت بدنامی بھی ان کے حصے میں آئی، مگر ہمیشہ جو صحیح سمجھا وہ کیا۔ ان کے خلوص اور ان کی نیت پر کم شبہ کیا جاسکتا ہے۔
باقی جانیں بھی بہت قیمتی تھیں۔ دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی انسان کی دنیا ہوتا ہے۔ اس حادثے نے نہ جانے کتنی دنیائیں اجاڑ دیں۔
اے ٹی آر بلندی کا سفیر نہیں۔ ہمالیہ کی پہاڑیاں جو سرو قامتی میں غالب کے محبوب کی ہمسری کریں وہ کہاں اس بچونگڑے سے سر ہوتی ہیں؟ ان دیوصفت کہساروں کے بیچوں بیچوں یوں سہما چلتا ہے جیسے کہ ماسٹر صاحب کے سامنے نو آموز شاگرد۔
پڑھیے: ماہرین نے اے ٹی آر طیاروں کو محفوظ قرار دے دیا
اے ٹی آر میں آرام بھی نہیں ہے اور پی آئی اے والوں کے لیے کوئی پیسہ بھی نہیں ہے۔ اسکردو، گلگت اور چترال کے روٹ نہ صرف دنیا کے مشکل ترین روٹ ہیں، بلکہ کاروباری لحاظ سے خاصے نقصان دہ بھی۔ یہ پی آئی اے کا وہ قرضِ حسنہ ہے جو جانے کتنے عرصوں سے ان علاقوں کے لوگوں پر واجب ہے۔
جاننا چاہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کے لیے اے ٹی آر کی اہمیت کیا ہے؟ اس کے لیے آپ کو چترال کے رستے کو سمجھنا ہوگا۔ سردی کی ایک ٹھٹھرتی کہر میں دیر ٹاپ کی چڑھائی پر وہ درجنوں موڑ گننے ہوں گے جن کے پیچ و خم میں مسافر کا ایمان بس کے ڈراییور کی بند ہوتی آنکھوں کے لیے غیب سے مدد مانگتا ہے۔
بوئینگ 737 یا ایئر بس 320 کو سمجھنا ہے تو نیٹکو آفس پیر ودھائی میں اسکردو سے آتی بس کے مسافروں کے چہروں کو پڑھنا ہوگا جو راستے کے بے وقت پڑاؤ پر دیر تک رکے اس قافلے کے مکمل ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں جس کے آگے اور پیچھے پولیس کی گاڑی خطرناک مقامات سے حفاظت کے ساتھ گزر کی ضمانت دیتی ہے۔
اگر ریٹائر ہوچکے فوکر جہاز کی افادیت سمجھنی ہے تو گلگت جاتی گاڑی میں گھٹنے سینے سے لگائے، کمبل اوڑھے اس مسافر کی مشکل سمجھنا ہوگی جو اٹھارہ گھنٹے کے اس پلِ صراط کے دوسری طرف اپنے حصے کی چھوٹی سی جنت دیکھنا چاہتا ہے۔
اے ٹی آر، بوئینگ، فوکر اور ایئر بس کے یہ چھوٹے اور کم آرامدہ طیارے تھکا دینے والی منزلوں، طویل انتظاروں، بھیانک حادثوں اور فرقہ ورانہ حملوں کی دنیا سے بہت بلند ایک مختصر اور سستی آسائش ہے۔
جانیے: ٹیک آف کے کچھ دیر بعد پائلٹ نے مے ڈے کال کی
سننے میں آیا ہے کہ یہ اے ٹی آر اس سے پہلے بھی خراب ہو چکا تھا۔ ایک دفعہ لاہور میں اور ایک دفعہ اسکردو کے روٹ پر۔ اسکردو والے واقعے میں تو اس کے انجن کو آگ بھی لگی تھی۔ اس حادثے کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے۔ کون ذمہ دار تھا، کس کی غلطی تھی، کہاں پر کیا بہتر ہو سکتا تھا، سب کی جانچ ہونی چاہیے۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ حادثے پر ہونے والے مباحث میں ان تمام زمینی حقائق کو ضرور سامنے رکھا جانا چاہیے جو اسکردو، چترال ، گلگت اور بہت سارے ایسے علاقوں میں پی آئی اے کی سروس کے حوالے سے ہیں۔
سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر ڈبل سواری پر پابندی یا موبائل فون سروس بند ہونے پر سیخ پا ہوجانے والی اس قوم کے کی بورڈ سورماؤں سے گزارش ہے کہ حادثے کے اسباب پر غور کریں، نہ کہ لوگوں کی سہولتیں کم کرنے پر بحث۔
یہ پروازیں ان علاقوں کے لیے شہہ رگ میں بہتے خون کی طرح ہیں۔ نہ جانے کتنے مریض، کتنے سیاح اور کتنے مسافر اب بھی اسکردو، چترال اور گلگت کے ایئر پورٹ پر روز اس منو بھائی کا انتظار کرتے ہیں جو ہر موسم میں وہ جہاز اتار سکے۔
کچھ خیال ان کا بھی کر لیجیے۔
اختر عباس اس آخری نسل کے نمائندے ہیں جس نے لکھے ہوئے لفظوں سے دور افتادہ رشتوں کا لمس محسوس کیا۔ وہ اس پہلی نسل کا بھی حصہ ہیں جس نے الیکٹرانک میسیجنگ کی برق رفتاری سے دلوں کے رنگ بدلتے دیکھے۔ نابیناؤں کے شہر میں خواب تراشتے ہیں اور ٹویٹر پر Faded_Greens@ کے نام سے چہچہاتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔