اے ٹی آر طیارے محفوظ قرار
بدھ 7 دسمبر کو حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہونے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 661 کے لیے استعمال ہونے والے اے ٹی آر 42 طیارے کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ وہ 'لگ بھگ 10 سال پرانا' اور ' بہت اچھی حالت' میں تھا۔
یہ بات پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے ترجمان دانیال گیلانی نے بتائی۔
اگرچہ رپورٹس کے مطابق طیارہ کو حادثہ 'انجن میں خرابی' کے باعث پیش آیا تاہم پی آئی اے کے کیپٹن رفعت سعید زور دیتے ہیں کہ 'کوئی بھی نہیں جانتا کہ کس وقت کیا ہوجائے'۔
انہوں نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا 'پی آئی اے طویل عرصے سے اے ٹی آر طیاروں کو استعمال کررہی ہے اور یہ طیارے بہت محفوظ ہوتے ہیں'۔
مزید پڑھیں:پی آئی اے کا طیارہ گر کر تباہ، 48 افراد جاں بحق
ان کا کہنا تھا 'پائلٹس اچھے تربیت یافتہ اور پی آئی اے کو انجنئیرنگ میں ٹاپ ریٹنگ حاصل ہے، مگر ہم نہیں جانتے کہ طیارے کے ساتھ کیا ہوا، سول ایوی ایشن اتھارٹی کو اصل حقیقت سامنے لانے دیں'۔
ائیر مارشل ریٹائرڈ شاہد لطیف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس سے اتفاق کیا، ان کا کہنا تھا 'یہ ابھی دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ واقعہ فنی خرابی کے باعث پیش آیا'۔
انہوں نے کہا 'پاکستان میں جب بات طیاروں کی ہو تو بین الاقوامی سیفٹی اسٹینڈرڈز کے حوالے سے ایک بڑا سوالیہ نشان سامنے آتا ہے، کیا پائلٹ نے ایک تفصیلی کال کرکے بتایا کہ کیا ہوا؟ اِس وقت ہمارے پاس یہ معلومات نہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: طیارے میں کون کون سوار تھا؟
انہوں نے مزید کہا 'ایمرجنسی لینڈنگ میں تصور کیا جاتا ہے کہ ایک طیارہ قریبی مقام پر اتر گیا، شاید ان کے پاس یہ موقع نہ ہو، شاید طیارہ اڑنے کے لیے اچھی کنڈیشن میں نہ ہو، اگر پائلٹ طیارے کی پرواز کو مستحکم نہیں رکھ پاتا تو اس کا گرنا لازمی ہوجاتا ہے'۔
شاہد لطیف کے مطابق 'ٹیکنیکل عملہ دور بیٹھ کر کسی مسئلے کی تشخیص تو کرسکتا ہے مگر جب تک طیارہ لینڈ نہ کرجائے اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتا، بدقسمتی سے اگر ایک انجن میں پرواز کے دوران خرابی آجائے تو اس طرح کے سانحات جنم لیتے ہیں'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے کافی عرصے پہلے اے ٹی آر طیاروں کو خریدا تھا، 'ہمارے پاس چھوٹے طیارے تھے جن کا استعمال ترک کرکے ان کی جگہ اے ٹی آر کو لیا گیا، یہ طیارے پرواز کرتے ہیں اور اب تک کوئی مسئلہ بھی سامنے نہیں آیا تھا'۔
مزید پڑھیں: پاکستان کی قومی ایئرلائن سفر کے لیے کتنی محفوظ؟
ایک فلائٹ انسٹرکٹر راس مسعود کی رائے تھی 'یہ ایک پہاڑی علاقہ تھا اور وہاں کریش کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں'۔
انہوں نے مزید کہا 'حد بصارت بھی ایک عنصر ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ محدود حد بصارت والا علاقہ ہے'۔
راس مسعود کا کہنا تھا 'اے ٹی آر طیاروں کا ٹریک ریکارڈ کافی اچھا ہے اور یہ عام طور پر چھوٹی پروازوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں'۔
انہوں نے مزید کہا ' تحقیقات سے ہی مزید نتائج مل سکیں گے، ابھی ہم کسی امکان کو مسترد نہیں کرسکتے'۔