'اب کوئی دوسرا جنید جمشید نہیں مل سکے گا'
جنید جمشید جیسی اعلیٰ درجے کی عوامی پسندیدہ شخصیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کی کمی نہیں ہوسکتی۔
وہ ایک ایسے شخص تھے جن کا شمار کئی زمروں میں کیا جاتا رہا — جن میں ایک ٹرینڈ سیٹ کرنے والے، متاثر کرنے والی روحانی شخصیت، ہمیشہ میڈیا کی توجہ کا مرکز رہنے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات تنازعات کا شکار ہونا شامل ہے، پوری قوم چترال سے اسلام آباد جانے والی پرواز کے حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہونے میں جاں بحق ہونے والے جنید جمشید کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے، ساتھ ہی ایک نیشنل آئکن کو کھونے کا شدید احساس بھی ہے۔
جنید جمشید 3 ستمبر 1964 کو کراچی میں پیدا ہوئے، ان کے والد جمشید اکبر خان کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے نوشہرہ سے تھا، جن کا رواں سال کے آغاز میں انتقال ہوا، وہ پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کے ریٹائرڈ افسر تھے، ان کی والدہ نفیسہ اکبر خان برطانوی راج میں 11 توپوں کی سلامی ریاست لوہارو کے نواب کی پوتی تھیں، جنید جمشید کے رشتہ داروں کے مطابق وہ اپنے والد کی طرح ایئر فورس کا حصہ بننا چاہتے تھے، تاہم اس میں ناکام رہے، انہوں نے اس کے بجائے لاہور کی انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں سے 1990 میں میکینیکل انجینیئرنگ میں گریجویشن کیا۔
اپنے ایک انٹرویو میں جنید جمشید نے کہا تھا کہ قسمت نے کبھی بھی ان کا اس کیریئر میں ساتھ نہیں دیا، جس کا انتخاب انہوں نے اپنے لیے کیا، ان کا موسیقی کے کیریئر کو اپنانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، موسیقی نے خود ان کا پیچھا کیا۔
1983 میں پشاور کی یونیورسٹی میں پرفارم کرنے کے بعد وہ اپنی یونیورسٹی کے بینڈ نٹس اینڈ بولٹس کا مرکزی چہرہ بن گئے، جس کے بعد وہ وائٹل سائنز کے مرکزی گلوکار بننے، پاکستان کی میوزک انڈسٹری میں جنید جمشید نے ایک ایسا مقام حاصل کیا، جو کسی کو نصیب نہ ہو سکا۔
وائٹل سائنز بینڈ کو عام طور پر بیٹیلز آف پاکستان کہا جانے لگا، جس نے پاکستان میں پاپ اور راک میوزک کو اہم پہچان دی، 1987 میں ریلیز ہونے والا گانا 'دل دل پاکستان' ایک قومی نغمہ بن گیا، جس نے جنید جمشید کو ایک ایسی پہچان دی جو ان کے میوزک انڈسٹری سے الگ ہونے کے باوجود ہمیشہ ان کے ساتھ رہی۔
اپنی آخری البم ریلیز کرنے کے 3 سال بعد جنید جمشید نے اعلان کیا کہ وہ موسیقی کو چھوڑ کر مذہب کی جانب بڑھ رہے ہیں اور فیصلہ کیا کہ اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کردیں گے۔
عائشہ اسلام جنید جمشید کی رشتہ دار ہیں، جو ان کو ایک سخی شخص کے طور پر یاد کرتی ہیں، قریبی دوست اور رشتہ دار ہونے کے باعث یہ کراچی میں جنید جمشید کے گھر پر جمع ہوا کرتے، جہاں کچھ عرصہ قبل جنید کے والد کے انتقال کا سوگ منایا گیا اور اب پی آئی اے کی بدقسمت پرواز پی کے-661 میں ہلاک ہونے والوں کے لیے دعائیں کی جارہی ہیں، انہوں نے اسے ایک قومی سانحہ کہا۔
عائشہ اسلام نے کہا کہ 'ہم ان تمام افراد کی موت کا دکھ منا رہے ہیں جو اس پرواز حادثے میں چل بسے، ہم سب اس غم کے موقع پر ایک ساتھ ہیں.
عائشہ سلام نے یہ بھی کہا کہ جہاں کئی افراد اپنے خیراتی کاموں کا تذکرہ عوام میں کرتے ہیں، جنید جمشید نے کبھی ان کے بارے میں عوامی سطح پر بات نہیں کی، وہ بے حد شائستہ انسان تھے، ایک مذہبی اسکالر ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی خود کا عالم نہیں کہا'۔
جنید جمشید کو واپس آنے کے بعد پارلیمنٹ کی مسجد میں جمعے کا خطبہ دینا تھا، جبکہ وہ چترال میں بھی تبلیغی جماعت کے کی دعوت کے سلسلے میں گئے تھے، جہاں سے واپس اسلام آباد آرہے تھے، بدھ کے روز اس سانحے کے بعد دنیا بھر سے مذہبی اسکالرز، سیاسی شخصیات اور جنید جمشید کے پُرانے دوستوں نے ٹوئٹر پر تعزیت کے پیغامات دیئے.
زمبابوے کے ڈاکٹر مفتی مینک جن کا شمار 2010 سے دنیا کے 500 متاثر کن مسلمانوں کی فہرست میں کیا جاتا رہا ہے، کا ٹوئٹر پر کہنا تھا کہ 'جنید جمشید اور ان کی اہلیہ کی پی آئی اے کی پرواز حادثے میں موت کی خبر کا سن کر دکھ ہوا، اللہ سب پر رحم کرے'۔
عائشہ سلام کے مطابق وہ لوگ جو جنید جمشید کو جانتے تھے کہا کرتے تھے کہ ان میں ایک چمک ہے، وہ ہمیشہ ایک قومی گلوکار، ایک آئکن، مذہبی اسکالر، ٹی وی کی اسکرین کا مرکز، کامیاب کاروباری شخصت، سیاسی مبصر، انسان دوست اور اعلیٰ خاندانی شخصیت کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا، وہ بے انتہا صلاحیت کے حامل تھے اور اب کوئی دوسرا جنید جمشید نہیں مل سکے گا'۔
یہ مضمون 8 دسبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوا