پاکستان کی قومی ایئرلائن سفر کے لیے کتنی محفوظ؟
کئی گھنٹوں کی آرامدہ فلائٹ کے بعد بھی آپ کو بالکل پرسکون نہیں ہوجانا چاہیے۔ کیوں؟
اگر آپ دنیا میں ایئرلائن سیفٹی کے صفِ اول کے ماہر پروفیسر آرنلڈ بارنیٹ کی بات پر یقین کریں تو فلائٹ کا سب سے پرخطر مرحلہ، یعنی لینڈنگ، اب بھی آپ کے سامنے ہوتا ہے۔
اور اس کا سبق شاہین ایئرلائنز کے ایک سو سے زائد مسافروں اور عملے نے اس وقت سیکھا جب ان کے طیارے نے لاہور ایئرپورٹ پر کریش لینڈنگ کی۔
کراچی سے لاہور تک کی ایک پرسکون فلائٹ کے بعد طیارہ ایک جھٹکے سے نیچے آ گرا۔ افسوس کی بات ہے کہ قومی سطح پر اب بھی اس بات پر بحث نہیں کی جاتی، مگر پاکستانی ایئرلائنز کا تحفظ کے حوالے سے ریکارڈ ایک کھلا راز ہے۔
پاکستان کی نجی ایئرلائنز بین الاقوامی ایئرلائن سیفٹی رینکنگ کا حصہ بننے کے لیے بہت چھوٹی ہیں، مگر پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے اکثر اس لسٹ میں رہتی ہے، ہر غلط وجہ کے لیے۔ یہ اپنے خراب سیفٹی ریکارڈ کی وجہ سے دوسری ایئرلائنز سے ممتاز ہے۔
ایئرلائن سیفٹی کے حوالے سے ایک تقابلی جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پی آئی اے تسلسل کے ساتھ ایئرلائن سیفٹی کے معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے، اور یہ دنیا کی سب سے پرخطر ایئرلائنز میں سے ایک ہے۔
پڑھیے: پی آئی اے کا طیارہ خوفناک حادثے سے بچ گیا
نیٹ سلور ایک امریکی ڈیٹا سائنٹسٹ ہیں جو نیویارک ٹائمز کے لیے لکھتے رہے ہیں، اور www.fivethirtyeight.com نامی بلاگ چلاتے ہیں۔ یہ بلاگ ڈیٹا کی مدد سے سیاسی اور سماجی-معاشی معاملات پر باخبر تبصرے پیش کرتا ہے۔
جولائی 2014 میں مسٹر سلور نے ایک سوال کا جواب دیا کہ "کیا مسافروں کو ایسی ایئرلائن میں سفر سے پرہیز کرنا چاہیے جو پہلے کریش ہوچکی ہوں؟"
سادہ جواب ہاں ہے۔
مسٹر سلور نے ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کے ڈیٹابیس کا سہارا لیا۔ انہوں نے 1985 سے 2014 تک کا سیفٹی ڈیٹا حاصل کیا، اور دو دورانیوں 1985 سے 1999 اور 2000 سے 2014 کے سیفٹی ریکارڈز کا موازنہ کیا۔
وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ آیا خراب پرفارمنس والی ایئرلائنز بعد میں بھی خراب پرفارمنس کا ہی مظاہرہ کرتی رہیں۔ مقصد یہ تھا کہ کیا کچھ ایئرلائنز تحفظ کے معاملے میں تسلسل کے ساتھ دوسری ایئرلائنز سے بہتر یا بدتر ہیں۔
ایئرلائن سیفٹی ڈیٹا میں بال بال بچنے کے واقعات، ہلاکت خیز حادثات، اور ہلاکتوں کے حوالے سے معلومات تھیں۔ کیوں کہ ایئرلائنز اپنے جہازوں کی تعداد اور آپریشنز کے حساب سے ایک دوسرے سے کافی مختلف ہوتی ہیں، اس لیے انہوں نے سب کا ایئرلائن سیفٹی ڈیٹا ہم آہنگ کرنے کے لیے اویل ایبل سیٹ کلومیٹرز (ASK) طریقے کا استعمال کیا، جسے دستیاب نشستوں کی تعداد کو ایئرلائن کی جانب سے طے کیے گئے کلومیٹرز کی تعداد سے ضرب دے کر حاصل کیا جاتا ہے۔
ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ایئرلائنز کا موازنہ کرتے وقت ان ایئرلائنز کے لیے معیار زیادہ کڑا نہ ہو جو کہ دوسری ایئرلائنز سے کہیں زیادہ اڑان بھرتی ہیں۔ نتیجتاً ہم ان ایئرلائنز کو بھی بہتر اسکور نہیں دینا چاہیں گے جن کے بیڑے میں محدود جہاز ہوں اور بہت تھوڑی پروازیں آپریٹ کرتی ہوں۔
پڑھیے: بھوجا طیارہ حادثہ، پائلٹ آٹومیشن ڈیک سے ناواقف تھے
ایک اور اہم فرق جسے ذہن میں رکھنا چاہیے وہ یہ کہ ایئرلائنز کی سیفٹی کا موازنہ ہلاکتوں یا ہلاکت خیز حادثات کی بناء پر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خراب ترین کارکردگی والی ایئرلائنز کے لیے بھی ہلاکت خیز حادثات روزانہ کا معمول نہیں ہوتے۔
ایئرلائنز کی سیفٹی کا حساب لگاتے وقت بال بال بچنے والے واقعات زیادہ موزوں ثابت ہوتے ہیں۔
ایک مثال پیش ہے: آپ کا ایک دوست ہے جو نہایت خطرناک ڈرائیور ہے۔ وہ تیز چلاتا ہے، ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتا، اور ڈرائیونگ کے دوران خطرات مول لیتے ہوئے موڑ کاٹتا ہے، گاڑی بچا کر نکال لیتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسا شخص کئی دفعہ حادثات سے بال بال بچے گا۔
پر ایسے شخص کے ٹریفک حادثے میں ہلاک ہونے کا امکان، چاہے وہ کتنا ہی ذمہ دار یا غیر ذمہ دار شخص کیوں نہ ہو، ہمیشہ 1 رہے گا۔ اس لیے بال بال بچنے کا موازنہ زیادہ بہتر ہے، کیوں کہ اس سے نتیجے کے بجائے رویے کا پتہ چلتا ہے، اور رویے سے ہمیں نتیجے کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔
مسٹر سلور نے ہر ایئرلائن کے لیے دونوں دورانیوں 1985 سے 1999، اور 2000 سے 2014 تک کے لیے بال بال بچنے کے واقعات کا موازنہ کیا۔ اور ذرا تکا لگائیں کہ کون سی ایئرلائن ان دونوں دورانیوں میں سب سے زیادہ پرخطر رہی: پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز۔
مسٹر سلور نے لکھا کہ "چارٹ میں کچھ ایسی بھی ایئرلائنز ہیں جن کی بال بال بچنے کے واقعات کی شرح ہمیشہ سے زیادہ رہی ہے، اور ان میں سے دو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز اور ایتھیوپین ایئرلائنز ہیں۔"