دنیا

ٹرمپ کی ایک ٹوئیٹ سے اربوں کا نقصان

نومنتخب امریکی صدر نے بوئنگ کے خلاف ٹوئیٹ کی تھی جس کی وجہ سے اس کے شیئرز کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔

امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک عہدے نہیں سنبھالا تاہم ان کے کہی ہوئی ہر بات کے دنیا بھر میں انتہائی سنجیدگی سے لیا جارہا ہے اور اس کے گہرے اثرات ببی مرتب ہورہے ہیں۔

عالمی رہنما اور کمپنیاں جانتی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ آج جو کہہ رہے ہیں عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اس پر عمل درآمد بھی کرسکتے ہیں۔

نو منتخب امریکی صدر کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کی جانے والی ان کی ایک ٹوئیٹ سے اربوں ڈالر کا فائدہ یا نقصان ہوسکتا ہے۔

امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس کی تازہ مثال ہمیں حال میں دیکھنے کو ملی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کے لیے خصوصی طیارے بنانے والی کمپنی بوئنگ کے حوالے سے ٹوئیٹ کی اور اس کے حصص کی قیمت 2 ڈالر فی شیئر تک نیچے گر گئی اور اور سرمایہ کاروں کے ایک ارب روپے ڈوب گئے۔

اس سے یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ اگر کسی کمپنی سے ٹرمپ کو مسئلہ ہے تو ان کا ایک ٹوئیٹ اس پر بم بن کر گر سکتا ہے۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکی اخبار شکاگو ٹریبیون نے بوئنگ کے چیف آپریٹنگ آفیسر کا انٹرویو شائع کیا تھا جس میں انہوں نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ کی خواہش پر ٹرمپ پر تنقید کی تھی اور ٹرمپ کا ٹوئیٹ اس انٹرویو کے شائع ہونے کے ایک گھنٹے بعد سامنے آیا۔

یہ شبہات بھی جنم لے رہے ہیں کہ ٹرمپ نے خود پر تنقید کرنے کی وجہ سے بوئنگ کے حوالے سے ٹوئیٹ جاری کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کامہنگے جہاز کے معاہدے کوختم کرنے کا حکم

واضح رہے کہ گزشتہ روز امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پیغام میں بوئنگ کے نئے ایئرفورس ون طیارے کو انتہائی مہنگے قرار دیتے ہوئے اس کو منسوخ کرنے کے لیے حکومت پر زور دیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹر پراپنے پیغام میں کہا تھا کہ 'بوئنگ مستقبل کے امریکی صدور کے لیے نئے 747 ایئر فورس ون تیار کررہا ہے لیکن اس کی لاگت قابو سے باہر ہے جو 4 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کو منسوخ کردیں'۔

ٹرمپ کی اس ٹوئیٹ کو اسٹاک مارکیٹ میں سنجیدگی سے لیا گیا اور بوئنگ کے معاہدے منسوخ ہونے کے خدشے کے پیش نظر اس کے حصص کی قیمت تیزی سے نیچے آئی۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 8 نومبر کو صدارتی انتخاب میں سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو غیرمتوقع شکست دے کر 4 سال کے لیے امریکا کے 45 ویں صدر منتخب ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: ‘ٹرمپ مسئلہ کشمیر حل کرسکتے ہیں’

ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری 2017 کو براک اوباما کی جگہ عہدہ صدارت کا حلف اٹھائیں گے اور وہ امریکا کی 240 سالہ تاریخ میں معمر ترین صدر ہوں گے۔

انتخابی مہم کے دوران تنقید کے نشتر برسانے والے، مذاہب اور ممالک کے خلاف باتیں کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے کامیابی کے بعد اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اتحاد ، شراکت داری اور مل کر کام کرنے پر زور دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم اختلافات کے بجائے اتفاق رائے سے چلیں گے، تنازعات کے بجائے شراکت داری کو فروغ دیں گے۔

دیگر ممالک سے امریکا کے تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا کہ تمام ملکوں کے ساتھ معتدل رویہ اپنائیں گے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ امریکیوں کے پرانے زخموں کو ٹھیک کریں گے اور وہ ہر امریکی شہری کے صدر ہوں گے۔