کینیڈین پاکستانیوں کی زندگیوں کی تلخ حقیقت
زارا 4 سال کی ہے، اور کینیڈا کے غریب بچوں کا ایک چہرہ ہے۔ اس کے والدین پاکستانی تارکینِ وطن ہیں جن کی مالی جدوجہد کینیڈا منتقل ہونے کے 12 سال بعد بھی جاری و ساری ہے۔
زارا کی کہانی صفحہءِ اول کی وہ خبر بنی جس میں ٹورنٹو — جس کے 27 فیصد بچے غربت کا شکار ہیں — کو غریب بچوں کے حوالے سے کینیڈا کا دارالحکومت قرار دیا گیا تھا۔
زارا اور اس کے جیسے ہزاروں بچے تھورن کلف پارک جیسی لسانی کالونیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن میں سے کئی علاقوں کو غربت اور یہاں تک کہ پرتشدد جرائم کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
چار سال قبل میں نے ڈان ڈاٹ کام کے لیے ایک مضمون لکھا تھا جس میں میں نے پاکستانی کینیڈین افراد کی مشکلات کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں شہری کینیڈا میں غربت کا ایک نیا چہرہ قرار دیا تھا۔
مجھے غصے میں بھرے سینکڑوں پیغامات موصول ہوئے۔ کچھ نے تو یہ تک کہا کہ میں نے جو مردم شماری کے اعداد و شمار دیے ہیں، وہ غلط ہیں۔ کچھ نے میرے ادارے سے کہا کہ مجھے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر یا تو فارغ کر دیا جائے یا سرزنش کی جائے۔
پڑھیے: پاکستانیوں کا 'اماراتی ڈریم'
میرے پیش کردہ اعداد و شمار پر زیادہ تر لوگوں نے مشتعل ہو کر حقیقت سے منہ موڑ لیا مگر آج کینیڈا کے سب سے بڑے اخبار کے صفحہءِ اول پر زارا کی چمکدار سیاہ آنکھیں حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتیں۔
20 ہزار سے زائد افراد کی آبادی والے علاقے تھورن کلف پارک کے ہر چار رہائشیوں میں سے ایک اردو بولتا ہے۔ یہاں مردوں، عورتوں اور بچوں کو جنوبی ایشیائی کپڑوں میں ملبوس دیکھنا عام بات ہے۔
حلال کھانوں کی دکانیں، مساجد، اور دکانوں کے باہر اردو تحریریں کینیڈا کے سب سے بڑے شہر ٹورنٹو کی ثقافتی رنگارنگی کی عکاس ہیں۔
مگر ثقافتی رنگارنگی کے پیچھے چھپی غربت کی وہ تلخ حقیقت ہے جس نے ان تارکینِ وطن کی زندگیوں کو مشکل بنا دیا ہے جو اپنے نئے ملک میں بھی وہی جدوجہد کر رہے ہیں جو انہیں اپنے وطن میں کرنی پڑتی تھیں۔
شمالی امریکا میں گذشتہ چند سالوں کے دوران تنخواہوں میں عدم توازن میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بالائی 1 فیصد اور بے انتہا امیر لوگ پچھلی چند دہائیوں میں مزید امیر ہوئے ہیں۔
اسی دورانیے میں نچلے 20 فیصد عوام کی قوتِ خرید میں کمی واقع ہوئی ہے۔ نوبیل انعام یافتہ ماہرِ اقتصادیات جوزف اسٹگلٹز وضاحت کرتے ہیں کہ اگر کم ترین آمدنی والے افراد روزانہ زیادہ گھنٹے بھی کام کریں، تب بھی ان کی آمدنی میں نہایت کم اضافہ ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے پروفیسر ڈیوڈ ہلچینسکی نے ٹورنٹو کے عوام کے درمیان بڑھتے ہوئے طبقاتی فرق پر ایک نہایت اہم تحقیق کی ہے جس میں تین طرح کے علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
پہلی قسم کے علاقے وہ ہیں جن کی آمدنیوں میں 1970 سے 2005 کے دوران خاصہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
دوسرے گروپ میں وہ علاقے شامل ہیں جن کی آمدنیوں میں اسی عرصے کے دوران 20 فیصد سے کم اضافہ یا کمی واقع ہوئی۔
تیسرے گروپ میں وہ علاقے شامل ہیں جن کی آمدنیاں 1975 سے لے کر اب تک زوال کا شکار ہیں۔
تھورن کلف پارک ان علاقوں میں سے ہے جس کے رہائشیوں نے اپنی آمدنیوں میں کوئی معنی خیز اضافہ نہیں دیکھا ہے۔
جدوجہد کر رہے دوسرے علاقوں کی طرح تھورن کلف پارک میں بھی عمومی تعداد سے کہیں زیادہ تارکینِ وطن آ بسے ہیں، جو کہ غیر ارادی طور پر آمدنی کی ناہمواری کا پہلا نشانہ بنے ہیں۔
تھورن کلف پارک کے ہر چار میں سے تین رہائشی واضح طور پر اقلیتوں میں سے ہیں۔ 2011 میں کینیڈین مردم شماری کے مطابق تھورن کلف پارک میں رہنے والا ہر پانچ میں سے ایک تارکِ وطن 2006 کے بعد کینیڈا آیا۔
مزید پڑھیے: یورپ کی میٹھی جیل
حالیہ تارکینِ وطن میں سب سے بڑا گروپ پاکستانیوں کا ہے، جبکہ اس کے بعد ہندوستانی، فلپائنی، اور افغانوں کا نمبر ہے۔
تھورن کلف پارک میں ایک جدوجہد کر رہے علاقے کی تمام خصوصیات ہیں۔ علاقے کے 90 فیصد گھر بلند عمارتیں ہیں۔ گنجائش سے زیادہ افراد کی رہائش عام ہے، بڑے گھرانے چھوٹے اپارٹمنٹس میں رہنے پر مجبور ہیں۔
علاقے کی آمدنی کی رپورٹ انکشاف کرتی ہے کہ یہاں موجود 38 فیصد رہائشی عمارات کینیڈا کے سرکاری معیار پر پورا نہیں اترتیں۔
اور اس خراب معیار کی رہائشی سہولیات کے ریٹ باقی کے ٹورنٹو سے دو گنا زیادہ ہیں۔ یہاں موجود ہر دو گھرانوں میں سے ایک اپنی پوری ماہانہ تنخواہ کا 30 فیصد سے زیادہ حصہ رہائش پر خرچ کرتا ہے۔
سال 2011 میں تھورن کلف پارک میں بیروزگاری کی شرح 16 فیصد تھی، جو کہ باقی کے ٹورنٹو سے 2 گنا سے زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ برسرِ روزگار افراد بھی اتنا نہیں کما پا رہے تھے کہ اپنے گھرانے کو ایک متوسط درجے کی زندگی فراہم کر سکیں۔
تھورن کلف پارک میں ٹیکس کٹوتی کے بعد اوسط آمدنی 46,275 ڈالر ہے جبکہ باقی ٹورنٹو میں 70,945 ڈالر ہے۔
کچھ پاکستانی تارکینِ وطن کی جدوجہد کیوں سالہاسال سے جاری ہے؟
پہلی بات تو یہ کہ پاکستانی تارکینِ وطن گھرانوں کی خصوصیات ان کے لیے مزید چیلنجز پیدا کرتی ہیں۔ خاندان بڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے رہائش اور زندگی کے دیگر اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ پہلے سے ہی کم فی گھرانہ آمدنی گھرانے کے ارکان کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے مزید کم پڑتی ہے۔
جانیے: کینیڈین انتخابات اور پاکستانی عزت کا جنازہ
ایک اوسط کینیڈین خاندان میں شوہر اور بیوی دونوں ہی کام کرتے ہیں جو کہ ایک اوسط پاکستانی تارکِ وطن گھرانے میں عام بات نہیں ہے۔
کینیڈین حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی تارکینِ وطن گھرانوں کی 50 فیصد سے بھی کم خواتین ملازمتوں میں موجود ہیں۔
چنانچہ جب آدھی سے زیادہ پاکستانی خواتین کام نہ کر رہی ہوں، تو پھر یہ معاشی طور پر کینیڈین گھرانوں کے برابر کیسے آ سکتے ہیں؟
پاکستانی تارکینِ وطن کی خراب معاشی صورتحال کی ایک وجہ پاکستان میں تعلیم کا کمتر معیار بھی ہے۔
کینیڈا آتے ہی زیادہ تر تارکینِ وطن اپنے ملک میں حاصل کردہ تعلیم کے مطابق کام ڈھونڈنے کی کوششوں میں جت جاتے ہیں۔
کینیڈا کی لیبر مارکیٹ میں تارکینِ وطن کے دوسری جگہوں سے حاصل شدہ تعلیمی قابلیت اور ملازمت کے تجربے کو ویسے ہی کم اہمیت دی جاتی ہے، لیکن کچھ تارکینِ وطن کی قابلیت اور تجربے کو دوسرے تارکینِ وطن کے مقابلے میں اس سے بھی کم اہمیت دی جاتی ہے۔
پاکستانی تارکینِ وطن اس معاملے میں کینیڈا میں شدید مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ کینیڈا میں ملازمت کے نقطہءِ نظر سے پاکستان کی تعلیم خراب ترین مانی جاتی ہے۔
ٹورنٹو میں تھورن کلف پارک اور ایسے دیگر علاقے تارکینِ وطن کے لیے ایک قدرتی پھندا ہیں۔
یہاں پیسوں کی کمی کے شکار تارکینِ وطن کو کم کرایوں پر رہائش مل جاتی ہے، جبکہ قریبی کام چلاؤ مساجد اور حلال کھانے فروخت کرنے والے اسٹورز بھی ان کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔
ان علاقوں میں رہنے کا سب سے بڑا نقصان اپنے حلقے میں محدود ہو کر رہ جانا اور ترقی کے مواقع گنوا دینا ہے۔ یہاں آ کر رہنے والے تارکینِ وطن کے سماجی حلقے اتنے مضبوط نہیں ہوتے کہ وہ مزید بہتر ملازمت حاصل کر سکیں۔
تو تارکینِ وطن برادریوں کو کیا کرنا چاہیے؟
جہاں ٹورنٹو میں علاقوں کی سطح پر تنظیمیں نئے آنے والے تارکینِ وطن کی زندگیوں میں بہتری کے لیے کام کر رہی ہیں، تو وہیں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ زیادہ تر تارکینِ وطن برادریوں نے اس کام کا بیڑہ خود اپنے سر نہیں اٹھایا ہے۔
تھورن کلف پارک میں رہنے والی مسلم برادری کی جدوجہد روایتی مقاصد کے لیے ہی ہوتی ہے، جیسے کہ مسجد کی تعمیر، یا اسکول کے طلباء کے لیے کیفے ٹیریا میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے اجازت نامے کا حصول۔
پڑھیے: کیا بنگلہ دیشی پاکستانیوں سے آگے نکل گئے ہیں؟
انہیں اپنے تجربے اور قابلیت کو بڑھانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ کام ڈھونڈ رہے افراد کی تربیت، یا ملازمت کے حصول سے ناامید افراد کو ہمت دلانے جیسے برادری کی سطح پر ہونے والے اقدامات سے جدوجہد کر رہے تارکینِ وطن کو فائدہ پہنچے گا۔
اگر ان کی پاکستانی میں حاصل کردہ قابلیت اور تجربے کو کینیڈا میں کم قبولیت حاصل ہے، تو انہیں یہاں پر تعلیم اور تجربہ حاصل کر کے اپنی استعداد بڑھانی چاہیے۔
مثال کے طور پر ٹورنٹو اور گرد و نواح کے شہروں کے لیے اربوں ڈالر کے انفراسٹرکچر کے منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں۔ ٹورنٹو ریجن بورڈ آف ٹریڈ کے اندازے کے مطابق اگلے 15 سال تک تعمیرات سے متعلق 147,000 ملازمتیں دستیاب ہوں گی۔
پاکستانی تارکینِ وطن کو ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے ایسے اقدامات کرنے چاہیئں کہ جس میں بیروزگار یا کم آمدنی والے افراد کو تعمیرات سے متعلق کاموں میں تربیت اور سرٹیفیکیشن دی جائیں۔ یاد رہے کہ اس شعبے میں فی گھنٹہ آمدنی کینیڈا کے کسی یونیورسٹی گریجوئیٹ کی فی گھنٹہ آمدنی سے زیادہ ہے۔
یہ بات درست ہے کہ کینیڈا میں ناہموار آمدنی کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی، مگر شہری غربت میں پاکستانی تارکینِ وطن کو صفِ اول میں نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستانی تارکِ وطن برادری میں بے انتہا انسانی استعداد ہے، یہ حالات کا رخ موڑ سکتے ہیں، مگر انہیں اپنی ترجیحات پر غور کرنا ہوگا۔
یا تو یہ اپنی استعداد کو مساجد کے اجازت ناموں کے حصول، یا اسکول اور ملازمت میں مذہبی سرگرمیوں کی اجازت حاصل کرنے میں لگا دیں، یا پھر مل جل کر اپنے ہنر بڑھائیں تاکہ مجموعی طور پر پاکستانی برادری کو ترقی دلوائی جا سکے۔
مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔