پاکستان

بلوچستان ہائی کورٹ نے ترک اساتذہ کی ملک بدری روک دی

عدالت نے وفاقی وزارت داخلہ کے حکام کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے انہیں آئندہ سماعت میں عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کردی۔

بلوچستان ہائی کورٹ نے پاک ترک اسکولز کے غیر ملکی عملے اور ان کے اہل خانہ کی ملک بدری کے احکامات کو معطل کردیا۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے ترک ٹیچرز اور ان کے اہل خانہ کی ملک بدری پر حکم امتناع جاری کردیا۔

ترک ٹیچرز نے وفاقی حکومت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنچ کیا تھا۔

اس کے علاوہ عدالت نے وفاقی وزارت داخلہ کے حکام کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے انہیں آئندہ سماعت میں عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔

ترک ٹیچرز کی جانب سے ایڈووکیٹ نادر چلغاری نے مقدمے کی پیروی کی اور انہوں نے موقف اپنایا تھا کہ ٹیچرز کی ملک بدری کا حکم بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں تین پاک ترک اسکولز ہیں کہاں تقریباً 14 طالب علم زیر تعلیم ہیں اور یہاں ترک اساتذہ کی تعداد 20 کے قریب ہے۔

کیس کی سماعت دسمبر کے آخری ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ نے بھی ترک ٹیچرز اور ان کے اہل خانہ کو ملک بدر کرنے کے وفاقی حکومت کے حکم کو معطل کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ترک اساتذہ کو ریلیف کیوں نہیں دیا؟

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے اساتذہ کو وزارت داخلہ سے دوبارہ رجوع کرنے کا حکم دیتے ہوئے درخواست نمٹا دی تھی۔

حکومت نے رواں ماہ کے آغاز میں پاک ترک اسکولز کے ترک عملے کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ 20 نومبر تک ملک چھوڑ دیں۔

ترک حکومت کا خیال ہے کہ پاک ترک اسکولز اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں جسے امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن چلاتے ہیں۔

ترکی کی جانب سے مبینہ طور پر پاکستان سے ان اسکولوں کی بندش کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ 15 جولائی کو ترکی میں بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترکی نے فتح اللہ گولن کی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے کر پابندی عائد کردی تھی۔

16 نومبر کو پاکستان کے 2 روزہ دورے پر آنے والے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کہا تھا کہ فتح اللہ دہشت گرد تنظیم نہ صرف ترکی بلکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے۔

مزید پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ نے پاک ترک اسکولز کے عملے کی ملک بدری روک دی

اس سے قبل اگست کے مہینے میں پاکستان نے دورے پر آنے والے ترک وزیر خارجہ میلود چاووش اوغلو سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاک ترک اسکولز کے معاملے پر غور کرے گا۔

اپنے دورے کے دوران میلود چاووش اوغلو نے کہا تھا کہ ’یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گولن کی تنظیم پاکستان اور دیگر ممالک میں کئی اداروں کو چلارہی ہے، مجھے یقین ہے کہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کیے جائیں گے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ان اداروں اور ان سے درپیش ہر اس ملک کے استحکام و سلامتی کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے جہاں یہ موجود ہیں‘۔

پاک ترک اسکولز اور کالجز کے نیٹ ورک کا قیام 1995 میں اس غیر ملی این جی او کے تحت عمل میں آیا تھا جو ترکی میں رجسٹرڈ تھی۔

اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ، کراچی، حیدرآباد، خیر پور اور جامشورو میں موجود تقریباً 28 اسکولوں کے اس نیٹ ورک میں اسٹاف کی تعداد تقریباً 1500 ہے جبکہ زیر تعلیم طلباء کی تعداد 10 ہزار کے قریب ہے جو پرائمری تا اے لیول تک تعلیم حاصل کررہے ہیں۔