نقطہ نظر

دم توڑتے قومی کھیل کو بچانے کی کیوں ضرورت ہے؟

چار ورلڈ کپ مقابلے جیتنے والی پاکستان کی ہاکی گزرتے وقت کے ساتھ بتدریج زوال پذیر ہے۔

دم توڑتے قومی کھیل کو بچانے کی کیوں ضرورت ہے؟

عرفان وحید

چار دسمبر 1994 کو پاکستان نے چوتھی مرتبہ عالمی کپ جیت کر انٹرنیشنل ہاکی کی بلندیوں تک پہنچنے کا اعزاز حاصل کیا۔

قومی ٹیم ایک انتہائی مضبوط ٹیم تصور کی جاتی تھی جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا اور ہاکی کی تاریخ میں ریکارڈ رقم کرتی رہی تھی۔ کوالیفائنگ راؤنڈ تک پہنچنا انتہائی معمولی بات تھی اور اس طرح کے مقابلوں کی خبریں اخباروں میں چھاپنے تک کے قابل نہیں سمجھی جاتی تھیں۔ اگر اس طرح کی کوئی خبر اخبار میں چھپ بھی جاتی تو اسے کھیلوں کے صفحے کے کسی کونے کھدرے میں دفن کردیا جاتا۔

لیکن پھر دس سال بعد کوالیفائنگ مقابلوں کی خبر اتنی کمتر نہیں سمجھے جانے لگی۔ ماضی میں ہاکی کے میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے والی پاکستانی ٹیم تاریخ میں پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کیلئے بھی کوالیفائی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

ہاکی کے تیزی سے کم ہوتے شائقین کو پھر 2015 میں اس وقت ایک اور دھچکا لگا جب پاکستانی ٹیم کو آئرلینڈ جیسی کمتر ٹیم کے خلاف شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس شکست کے نتیجے میں ایک اور المیہ پہلی دفعہ رونما ہوا: پاکستان پہلی مرتبہ اولمپکس ہاکی کیلئے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہا۔

1978 کا ورلڈ کپ جیتنے والا اسکواڈ۔

کرکٹ شائقین کو اس موقع پر آئرلینڈ کے خلاف پاکستانی کرکٹ ٹیم کی اسی طرح کی کارکردگی یاد آ سکتی ہے لیکن وہ اس بات پر شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ یہ شکست اہم ترین ایونٹ میں ہی ہوئی تھی اور آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کرکٹ ٹیم کسی اہم ایونٹ کیلئے کوالیفائی نہ کر سکی ہو۔

ہاکی میں ایک اور انٹرنیشنل ایونٹ چیمپیئنز ٹرافی ہے جس کی بنیاد 1978 میں پاکستانی ہاکی فیڈریشن نے ڈالی تھی۔ اتفاقاً پاکستان نے آخری مرتبہ چیمپیئنز ٹرافی بھی 1994 میں ہی جیتی تھی۔ 1998 سے اب تک گرین شرٹس صرف ایک مرتبہ فائنل تک رسائی کر سکے جب 2014 میں انہیں جرمنی کے ہاتھوں 2-0 سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

1960 کا اولمپکس جیتنے کے بعد ڈان کے پہلے صفحے کا تراشہ۔

اس ایونٹ میں پاکستان ہندوستان کے درمیان کھیلا گیا ہاکی کا سیمی فائنل پاکستان ہاکی کی جدید تاریخ کا نایاب اور یادگار لمحہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ شاید ہندوستان کے خلاف اسی کی سرزمین پر میچ کے سبب پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر عمدہ کھیل پیش کیا۔

پاکستان کی ابتر کارکردگی کا آغاز گزشتہ صدی کے اختتام پر شروع ہوا لیکن اس ابتری نے لوگوں کی توجہ 2010 تک حاصل نہ کی جب اسی سال منعقدہ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم آخری نمبر پر آئی۔

اس کے بعد سے پاکستانی ہاکی اسی مقام پر موجود ہے اور اپنے معیار اور ساکھ کی بحالی کی کوشش تک نہ کی۔ ورلڈ کپ اور اولمپکس سے اخراج کی چشم کشا حقیقت ان کی کمتر کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

1956 کے اولمپکس کے شریک پاکستانی ہاکی ٹیم، چند کھلاڑیوں نے ننگے پیر حصہ لیا۔

گزشتہ دہائی کا مزید باریک بینی سے جائزہ لینے سے وہ تمام محرکات عیاں ہو جاتے ہیں جو پاکستان ہاکی کے زوال کا سبب بنے۔

1998 میں لاہور میں منعقدہ چیمپیئنز ٹرافی وہ واحد مسابقتی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ تھا جس کی پاکستان نے میزبانی کی تھی۔ ہاکی کے اس 18 سالہ قحط کے نتائج اب سب کے سامنے ہیں۔

کرکٹ کو بھی اسی طرح کے قحط کا سامنا کرنا پڑا لیکن فوری طور پر عملی اقدامات کی بدولت اس دھچکے سے سنبھلنے میں کامیاب رہا۔ اس میں سے سب بڑا قدم گھر سے دور متحدہ عرب امارات میں ایک نئے 'ہوم' کا قیام تھا۔

دبئی کے اسپورٹس کمپلیکس میں دستیاب سہولتیں پاکستان کے خستہ حال ٹیسٹ سینٹرز کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مزید یہ کہ بورڈ نے بھی آگے کا سوچتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا کہ کھلاڑیوں کے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے مواقع ضائع نہ ہوں۔

لیکن افسوسناک امر یہ کہ ہاکی کے لیے اس طرح کے اقدامات نہ کیے گئے جس کے نتیجے میں قومی کھیل لوگوں کی حمایت اور دلچسپی سے محروم ہوتا گیا اور اسے ہاکی کے کھیل میں دلچسپی لینے والے نوجوانوں کی تعداد میں بھی تیزی سے کمی واقع ہوئی۔

اس سلسلے میں مالی پہلو کو بھی ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؛ پاکستان میں ہاکی کبھی بھی منافع بخش یا پیسے والا کھیل نہیں رہا اور شائقین کی کم دلچسپی کی وجہ سے مالی معاملات مزید ابتر ہوتے چلے گئے۔

اس سال کے اوائل میں افواہیں زیر گردش رہیں کہ کرکٹ کی پاکستان سپر لیگ کی طرز پر ہاکی کی لیگ بھی متعارف کرائی جائے گی لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ خراب مالی حالات کے سبب لیگ کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکے گا۔

یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے قومی کھیل کو حکومت کی جانب سے کوئی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اگر حکومت ہاکی سے سرد مہری جاری رکھے گی تو ہماری آنے والی نسل انتہائی حیران ہو کر یہ سوال کرے گی کہ ہاکی ہمارا قومی کھیل کیوں ہے۔

عرفان وحید

عرفان وحید امریکی ریاست ٹیکساس میں مقیم انجینیئر ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس irfanwaheed@msn.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔