عربوں کو شکار کی اجازت:سینیٹرز کی حکومت پر تنقید
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اراکین نے امیر عربوں کو پاکستان میں شکار کے لیے کھلی اجازت دینے پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر میر محمد یوسف بَدینی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اپنی زمینوں پر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی، کیونکہ وہاں شیخ شکار کر رہے ہیں۔‘
کمیٹی کے اراکین نے سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے کیے گئے ان دعوؤں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ ’اگر عرب شاہی خاندانوں سے شکار کی اجازت واپس لے لی جاتی ہے، تو ہمارے عرب ممالک سے تعلقات متاثر ہوں گے۔‘
کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ قطری شہزادہ، ممکنہ طور پر وہی جس نے سپریم کورٹ کو خط لکھا، ان دنوں بھکر میں شکار کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عرب شہزادوں کا شکار: 'خارجہ پالیسی کا اہم ستون‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب آپ کہیں کہ ہم رعایا ہیں اور دوستانہ تعلقات کا انحصار ان کے لیے ہماری خدمات ہیں، لیکن ہمیں یہ بتایئے کہ حکومت نے عرب شاہی خاندانوں کی جانب سے بے فکری سے کیے جانے والے شکار کو کم کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔‘
اراکین کمیٹی نے کہا کہ حکومت کو مقامی اور غیر ملکی افراد کے لیے شکار کے یکساں قوانین بنانے چاہیے، جبکہ چند اراکین نے تو عرب شاہی خاندان کے افراد کی نگرانی کے لیے حکومت سے نگراں اداروں کے قیام کا بھی مطالبہ کیا۔
موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار وزیر زاہد حامد اس بحث کے دوران خاموش رہے اور صرف یہ کہا کہ ’پاکستانی تلور اور ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کے انڈومنٹ فنڈ کے لیے آنے والی رقم صوبوں کو فراہم کی جاتی ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 25 کروڑ روپے کے یہ فنڈز مقامی آبادیوں کی فلاح کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔
کمیٹی نے شکار کے حوالے سے ادارہ قائم کرنے اور واضح پالیسی بنانے کے لیے حکومت کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔
مزید پڑھیں: سعودی شہزادے کو نایاب باز کی برآمد کی اجازت
کمیٹی کے اجلاس میں موسمی تبدیلی اور لاہور میں اسموگ کے معاملات بھی زیر غور آئے۔
اراکین نے لاہور اور وسطی پنجاب کے دیگر حصوں میں شدید اسموگ سے متعلق سوالات کا جواب نہ دینے پر وزارت موسمیاتی تبدیلی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ ’یہ عجیب بات ہے کہ متعلقہ وزارت نے شدید اسموگ کی وجہ جاننے کے لیے کوئی مطالعہ نہیں کرایا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ مستقبل قریب میں اسموگ ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔‘
اس کے بعد مشاہد حسین سید نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی سے ہونے والی گفتگو سے متعلق بات کی۔
یہ بھی جانیں: موسمی تبدیلیوں سے پاکستان کو لاحق خطرات
مشاہد سید کے مطابق ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ ’بھارت موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے پاکستان کی 10 کروڑ ڈالر کی امداد روکنے کے لیے لابنگ کر رہا تھا۔‘
زاہد حامد نے اعتراف کیا کہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے قائم ایجنسی (انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی) کی سرگرمیاں صرف اسلام آباد تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔
اراکین نے اتفاق کیا کہ بارشوں کی کمی اور شدید اسموگ موسمی تبدیلی کے اشارے ہیں اور متعلقہ وزارت کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فعال نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی: 'سالانہ 20 ارب ڈالر کا نقصان'
کمیٹی نے وزارت موسمیاتی تبدیلی کو اسموگ کے حوالے سے 10 روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
یاد رہے کہ زاہد حامد کو وزیر موسمیاتی تبدیلی کا اضافی چارج دیا گیا تھا، وہ وزیر قانون کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔
یہ خبر 6 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔