سائنس کی کتابوں میں سائنس دشمنی
بائیولوجی کی نصابی کتب سے ویسے تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ اس میں بائیولوجی کو بطور سائنس پڑھایا جائے، یعنی جانداروں کی ساخت، ان کی نمو، اور ان کی ابتداء کا علم۔
پر اگر بائیولوجی کی نصابی کتاب یہ سب پڑھانے کے بجائے کہے کہ سائنس کو عقیدے کا ماتحت ہونا چاہیے اور بائیولوجی کے بنیادی اصولوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں غلط اور نامعقول قرار دے، تو؟
خیبر پختونخواہ میں گذشتہ سال شائع ہونے والی بائیولوجی کی نصابی کتاب کہتی ہے کہ "چارلس ڈارون کی جانب سے 19 ویں صدی میں پیش کیا گیا نظریہءِ ارتقاء تاریخ کے سب سے ناقابلِ یقین اور نامعقول دعووں میں سے ہے۔"
زندگی کی پیچیدہ شکل کے سادہ، ابتدائی ساخت سے وجود میں آنے کے کلیے کو جھٹلاتے ہوئے اس کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نظریہءِ ارتقاء عام فہم کے خلاف ہے، اور اتنا ہی "بے بنیاد" ہے کہ جیسے یہ مان لیا جائے کہ دو رکشوں کے ٹکرانے سے "ایک موٹر کار نے جنم لیا۔"
دو رکشوں کے ٹکرانے سے ایک گاڑی کبھی بھی نہیں بنے گی۔ یہ عام فہم ہے۔ مگر اس مثال کا پروکیریوٹ (بغیر مرکزے والے خلیے) سے یوکیریوٹ (مرکزے والے خلیوں) میں تبدیل ہونے سے کیا تعلق ہے (جسے کتاب کے مصنفین جھٹلانا چاہ رہے ہیں؟)
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عام فہم، یا کامن سینس، سائنس میں کام نہیں آتا۔ یہ کامن سینس وہی فہم ہے جس کی بناء پر ہم پہلے یہ سمجھتے تھے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے، زمین چَپٹی ہے، اور یہ کہ ٹھنڈ میں باہر نکلنے سے زکام ہوجاتا ہے۔ عام فہم نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ سگریٹ پینے سے کینسر ہوجاتا ہے، بلکہ سائنسی ثبوتوں نے بتایا۔
ڈارون کا نظریہءِ ارتقاء اور نیوٹن کے قوانینِ حرکت سالہا سال ثبوت اکٹھے کرنے اور مستقل مزاجی کے ساتھ مشاہدات کے بعد پیش کیے گئے، صرف عام فہم کی بناء پر نہیں۔ انہیں ہٹا لیجیے، اور بائیولوجی اور فزکس فوراً بکھر کر صرف بے معنی حقائق کا مجموعہ رہ جائیں گے۔ اگر بنیاد ہٹا لی جائے، تو بائیولوجی بائیولوجی نہیں رہے گی اور فزکس فزکس نہیں رہے گی۔ یہ مضامین سائنس کی شاخیں نہیں رہیں گے۔
اگر یہ صرف ایک نصابی کتاب کا معاملہ ہوتا تو میں یہ مضمون کبھی نہ لکھتا، مگر پاکستان میں تقریباً تمام نصابی کتابوں کا یہی حال ہے۔ خیبر پختونخواہ کی ایک اور نصابی کتاب کہتی ہے کہ "درست اور متوازن ذہنی حالت رکھنے والا شخص" کبھی بھی مغربی سائنس کے بے سر و پا نظریوں کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ دوسرے لفظوں میں ان نظریوں پر یقین رکھنے والے پاگل ہیں۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع کردہ فزکس کی کتاب واضح طور پر کہتی ہے کہ کائنات بس ایک فقرہ کہتے ہی فوراً خود بخود وجود میں آگئی۔
سائنس دشمنی صرف ہماری کتابوں میں ہی نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے کئی سائنس اور میتھس کے اساتذہ اپنے اپنے مضامین پر یقین نہیں رکھتے۔ چاہے اسکول کے اساتذہ ہوں یا یونیورسٹی کے، انہیں بس مطلوبہ ڈگریاں ہونے کی وجہ سے نوکری مل جاتی ہے، مگر تمام اساتذہ اس چیز سے متفق نہیں ہوتے جو پڑھانے کے انہیں پیسے دیے جاتے ہیں، یہاں تک کئی اساتذہ ان مضامین کو سمجھتے بھی نہیں۔ لہٰذا یہ حیران کن نہیں کہ بائیولوجی کے زیادہ تر پاکستانی اساتذہ یا تو جان کر انسانی ارتقاء کے موضوع پر بات نہیں کرتے، یا بات کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے۔
دوسرے اساتذہ بھی سائنس اور مذہب کے درمیان کشمکش کا شکار رہتے ہیں۔ قاری 'ن' قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں میتھس کے پروفیسر تھے اور قائدِ اعظم یونیورسٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں میرے پڑوسی تھے۔ وہ ایک نرم گو اور انتہائی پارسا شخص تھے۔ مذہب کے وہ اس قدر پابند تھے کہ ان کی شلوار ہمیشہ ٹخنوں سے اوپر رہتی، اور وہ عید کی نماز کے بعد گلے ملنے کو بدعت قرار دیتے ہوئے گلے ملنے سے انکار کر دیتے۔
وہ میتھس میں پی ایچ ڈی تھے مگر اپنے ماسٹرز کے طلباء سے کہتے تھے کہ یوں تو میرا کام میتھس پڑھانا ہے، مگر میتھس پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ وہ نہ صرف میتھس کو جھٹلاتے تھے، بلکہ مغرب کی تمام "ثقافتی آلودگیوں" بشمول جدید طب، کے سخت ناقد تھے۔
شدید ترین ذیابیطس ہونے کے باوجود وہ ڈاکٹر کے پاس جانے سے انکار کرتے رہے اور اپنا پورا بھروسہ ایک حکیم پر قائم کیے رکھا جس نے انہیں روزانہ کئی چمچ خالص شہد کھانے کا مشورہ دیا۔ مجھے آج بھی ان کے جنازے میں شرکت نہ کر پانے کا افسوس ہے۔
گذشتہ چار دہائیوں میں میں نے انگلش اور اردو زبانوں میں اسکولوں کی کئی سائنسی کتابیں اکٹھی کی ہیں۔ زیادہ تر پنجاب اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈز کی جانب سے شائع کی گئی ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ 20 کروڑ آبادی کے ملک میں کتنی کاپیاں چھپتی ہوں گی، اور شرحِ منافع ذرا سی بھی ہو تو یہ کس قدر منافع بخش کام ہے۔ سرکاری تعلیمی محکموں میں کرپشن اور نااہلی کے پنپنے کے لیے یہ بالکل موزوں ماحول ہے۔
ایک سال پہلے میرا مضمون "ان کتابوں کو جلا دیجیے!" اسی اخبار میں شائع ہوا تھا۔ میں نے التجاء کی تھی کہ "ہمارے بچوں کو محکمہءِ تعلیم سندھ کے ماتحت ادارے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع کردہ گلی سڑی کتابوں سے دور رکھا جائے، ورنہ ہماری ایک اور نسل ایسی پیدا ہوگی جو فزکس، میتھس، کیمسٹری اور بائیولوجی پڑھنے کے باوجود ان مضامین سے لاعلم ہی رہے گی۔"
مضمون نے سندھ کے حالیہ سیکریٹری تعلیم کو متوجہ کیا۔ وہ تبدیلی لانے کے لیے پرعزم نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے مجھے سندھ حکومت کے ایجوکیشن ایڈوائزری بورڈ کا حصہ بننے کی دعوت دی جو میں نے فوراً قبول کر لی۔ کراچی کی ایک فلاحی شخصیت نے نصابی کتب کو نئے خطوط پر استوار کرنے کے تمام اخراجات اٹھانے کی پیشکش کی، اور کمیٹی کی میٹنگ میں شمولیت کے لیے میرے فضائی سفر کے اخراجات بھی ادا کیے۔ تھوڑا جوش و جذبہ اور امید کی ایک ہلکی سی کرن نظر آنے لگی تھی۔
پہلی میٹنگ ہوئی، اور پھر کئی میٹنگز ہوئیں۔ بدقسمتی سے کمیٹی کے سیکریٹری نے یقینی بنایا تھا کہ کام آگے نہ بڑھ پائے۔ کئی وعدے کیے گئے، مگر پورا ایک بھی نہیں ہوا، اہم مسائل کو ایسے ہی چھوڑ دیا گیا، اور کبھی نہ ختم ہونے والی افسر شاہی رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔
ایک سال بعد میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری کوششوں، جس میں امریکا میں مقیم ایک پاکستانی پروفیسر کی کوششیں بھی شامل ہیں، کو صفائی سے ٹھکانے لگا دیا گیا ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ کمیٹی کو تحلیل کر دیا گیا ہے، مگر اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ عدم سنجیدگی تو پہلے دن سے واضح تھی۔ جب لومڑیوں کو مرغیوں کی حفاظت پر لگایا جائے گا تو پھر نتیجے پر حیرانی کیسی؟
سندھ کا محکمہءِ تعلیم اب اصلاح کے قابل نہیں رہا۔ یہ میٹرک اور انٹر کے لیے معیاری نصابی کتب تیار نہیں کر سکتا۔ واحد معقول راہ یہ ہے کہ بین الاقوامی طور پر تیار کردہ 'اے' اور 'او' لیول کی کتابوں کو اپنایا جائے، ترجمہ کیا جائے، اور ان پر سبسڈی دی جائے، کیوں کہ فی الوقت یہ کتابیں صرف اونچے طبقے کی پہنچ میں ہیں۔
جن لوگوں کو یہ مغرب کی ثقافتی یلغار محسوس ہو، انہیں چاہیے کہ وہ اپنی سائنس خود بنا لیں۔ اس دوران وہ نہ ہی بجلی استعمال کریں اور نہ ہی موبائل فون۔ گدھوں اور اونٹوں پر سفر کیا کریں اور بیماری کی صورت میں اینٹی بائیوٹکس یا انسولین لینے کے بجائے میرے سابقہ پڑوسی کی طرح صرف روزانہ شہد کھایا کریں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 3 دسمبر 2016 کو شائع ہوا۔
لکھاری لاہور اور اسلام آباد میں فزکس اور میتھمیٹکس پڑھاتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔