طلاق کی بڑھتی شرح میں ملکی حالات کا کردار
روئے زمین پر بسنے والے تقریباَ تمام انسانوں کی دیگر ترجیحات و خواہشات میں شادی بھی ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔
رشتہءِ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد جہاں ایک طرف خوشیاں آپ کے گھر آتی ہیں، تو وہیں طرزِ زندگی میں بھی تبدیلی آجاتی ہے اور ساتھ ہی آپ کو اپنی خوشیاں اور غم بانٹنے کے لیے ایک حصہ دار مل جاتا ہے۔
یہ رشتہ تکلیف کا باعث تب بنتا ہے جب دو افراد کے درمیان 'طلاق' کی صورت میں علیحدگی ہو جائے۔
ہر انسان کی فطرت مختلف ہوتی ہے۔ شادی کے بعد بعض لوگ حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور خود کو اس کے مطابق ڈھال لیتے ہیں جبکہ دیگر لوگ دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں جس کا نتیجہ طلاق کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
زیادہ تر طلاق کی وجہ غصے کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہ غصہ اچانک آ جاتا ہے اور کبھی تو برسوں سے اندر پل رہا ہوتا ہے۔ ایسے حضرات اکثر یوں کہتے ہیں کہ غصے میں طلاق دے دی یا اس وقت غصہ بہت آ گیا تھا، لیکن طلاق کا اصل سبب وہ صورتحال اور حالات ہیں جو اس غصے کا باعث بنتے ہیں۔
پڑھیے: پاکستانی طلاق کو برا کیوں سمجھتے ہیں؟
پرانے برسوں میں غصے کی کیفیت ساس بہو کے جھگڑوں، بے اولادی یا مرد کی کہیں اور دلچسپی کے سبب طاری ہوتی تھی اور طلاق کا باعث بنتی تھی لیکن اب تو یہ غصہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ، کپڑے استری نہ ہونے اور کھانا دیر سے پکنے پر بھی آ سکتا ہے۔ یہ غصہ بیروزگاری کے سبب بھی آسکتا ہے، یہ غصہ سی این جی کی لائن میں لگنے یا دیر سے دفتر پہنچنے پر بھی آسکتا ہے۔
پاکستان میں طلاق کی بڑھتی شرح میں اضافے کی وجہ، پاکستان کے ناگزیر حالات ہیں اور پاکستان کا کمزور معاشی نظام ہے جو براہِ راست شادی شدہ زندگی پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
سب سے اہم وجہ کم آمدنی اور بڑھتی مہنگائی ہے۔ ماہانہ بجٹ حد سے تجاوز کرنے کے باعث اب گھر کے مرد اور عورت دونوں کو ملازمت اختیار کرنی پڑتی ہے جس سے گھر کے معاملات متاثر ہوتے ہیں۔
اسی سے ملتی کڑی بیروزگاری بھی ہے۔ بیروزگاری کی وجہ سے کئی مرد حضرات روزگار کے حصول کے لیے بیرونِ ملک رخ کرتے ہیں جن میں سے اکثر مرد سالہا سال وطن نہیں آ پاتے۔
گھر میں مرد کے نہ ہونے کے باعث خاتونِ خانہ مایوسی اور الجھن کا شکار ہو جاتی ہیں اور اسی کشمکش میں نوبت علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے۔ جو مرد بیرونِ ملک نہیں جاتے اور یہیں پر رہ کر ملازمت کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں، اکثر گھریلو حالات اور خرچے پورے کرنے میں ناکامی سے تنگ آ کر علیحدگی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔
دوسری اہم`وجہ بچوں کے لیے حکومت کی طرف سے کسی قسم کے ماہانہ فنڈ کا نہ ہونا ہے۔ بچوں کی غذائی اور طبی سہولتوں کے لیے حکومتی سطح پر کوئی پالیسی بھی موجود نہیں۔ بچوں کو سستی اور اچھی تفریحات میسر نہیں بلکہ بھاری بھاری اسکول فیسوں کی وجہ سے معیاری تعلیم کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے۔
ایک طرف تو اشرافیہ کے بچے بڑے بڑے کلبز میں اپنی تفریحی سرگرمیاں پوری کرتے ہیں تو دوسری جانب کسی غریب بے سہارا شخص کے گھر کا چراغ گجر نالے کے کنارے کھیلتا ہوا اس میں جا گرتا ہے اور ہمیشہ کے لیے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ بچوں کی ضروریات پوری نہ ہونے کے سبب گھر میں چپقلش رہتی ہیں جو ایک بڑے جھگڑے میں تبدیل ہو کے طلاق کا باعث بنتی ہیں۔
میں ایک اور اہم مسئلے کی جانب بھی نشاندہی کرنا چاہوں گی، وہ گھر سے باہر سڑکوں پر دوڑتی ٹریفک کی ناقص صورتحال کے بارے میں ہے۔ پہلے مرد حضرات گھنٹوں سی این جی یا پیٹرول کی لائن میں لگے رہتے ہیں، پھر دفتر سے واپسی پر گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں۔
ایک ذہنی اور جسمانی طور پر تھکا دینے والے سفر کے بعد گھر واپس پہنچتے ہیں تو اعصاب اس قابل نہیں رہتے کہ گھر والوں سے خوشگوار موڈ میں بات کی جائے اور یوں روزانہ کی چخ چخ بڑے جھگڑے کی وجہ بن جاتی ہے۔
مزید پڑھیے: تشدد کے خلاف مقدمہ درج کرانے پر خاتون کو طلاق
پچھلے چند سالوں سے پوری پاکستانی قوم جس چیز کا عذاب بھگت رہے ہیں، وہ ہے بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ۔ صبح سویرے بچوں کو اسکول اور میاں صاحب کو دفتر جانا ہوتا ہے مگر چولہے میں سے گیس غائب ہوتی ہے۔
ایسے میں اکثر بغیر ناشتہ کیے جانا پڑتا ہے اور خالی پیٹ انسان مزید چڑچڑاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب واپس آتے ہیں تو گھر میں بجلی کی نعمت دستیاب نہیں ہوتی۔ اس طرح صبح سے شام تک حالات مسلسل تناؤ غصے میں بدل جاتا ہے جو خاتونِ خانہ پر نکلتا ہے، جو بعض جگہ طلاق کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔
پاکستانی قوم ایک ذہین قوم ہےاور ہمارا ملک پاکستان خدا کی عطا کردہ خاص نعمت ہے، پاکستان کی حقیقی ترقی کا مطلب لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانا اور ایک عام شہری کی مشکلات کو ختم کر کے ہر ممکن سہولیات فراہم کرنا ہے۔
ہمارا ملک اُسی صورت میں ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا جب یہاں کے لوگوں کو ذاتی طور پر سکون اور خوشحالی میسر ہو پائے گی اور ذاتی خوشحالی کا بالواسطہ تعلق حکومتی اقدامات سے ہے جو کہ وہ اپنی عوام کے لیے کرتی ہے۔
جب لوگوں کو اچھا روزگار میسر ہوگا، مہنگائی نہیں ہوگی، لوگ اپنے ملک میں ہی روزگار کو ترجیح دیں گے، بچوں کے لیے اچھی تعلیم عام ہوگی، ٹریفک جام یا گیس بجلی کا عذاب نہیں بھگتنا پڑے گا تو لوگوں کے گھروں اورذہنوں میں سکون ہوگا ازدواجی زندگی کو بھی خطرات لاحق نہیں ہوں گے۔
مذکورہ بالا ایسے مسائل نہیں جو کہ سالوں میں حل ہوں، حکامِ اعلیٰ کی جانب سے سنجیدہ پالیسیوں اور عملی اقدامات سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں اور ملک میں سے انتشار کی کیفیت ختم ہو سکتی ہے۔
جب تک یہ حالات بہتر ہوں اور مسائل سے چھٹکارہ ملے، اس وقت تک اپنے اندر غصے کی کیفیت کو خود سے مارنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ کبھی کبھی انسان اپنے ذہن کو اس طرح تیار کر لیتا ہے کہ ہزارہا مسائل اور مشکلات کے باوجود وہ اپنی مثبت سوچ ان سب پر غالب لے آتا ہے۔
جانیے: فیس بک بن سکتی ہے طلاق کا سبب
جیسے چند دنوں پہلے ایک تصویر نظروں سے گذری جس میں ایک والد اپنی چھوٹی بیٹی اور بھتیجی کو اپنے مکمل طور پر تباہ حال گھر کے ایک باتھ ٹب میں نہلا رہا ہے، اور اس تصویر میں ایک غیر معمولی بات یہ ہے کہ اس میں والد اور دونوں بچیاں مسکرا رہے ہیں۔ یہ تصویر جہاں مظالم کا ایک عکس ہے وہاں زندہ حوصلے کی شاہد بھی، حالات کی کڑوی سچائی ہے تو وہیں رشتوں کے درمیان محبت کی علامت بھی۔
اس لیے اپنے اندر محبت اور حوصلے کو اس قدر پیدا کر دیں کہ غصے اور انتشار پر غالب آ جائے۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے مگر حکام بالا کے کانوں پر جوں رینگنے تک ہمیں اپنے اندر مثبت پہلوؤں کو خود روشن کرنا ہوگا تاکہ ہم خوبصورت رشتوں کو ان مسائل کی بھینٹ نہ چڑھنے نہ دیں۔ زندگی کی گاڑی دو پہیوں پر چلتی ہے اسے ملکی حالات کے اسپیڈ بریکر سے بچائیں۔
ثمیرہ ظفر بین الاقوامی تعلقات اور اردو میں ایم اے کی ڈگری رکھتی ہیں۔ وہ خاتونِ خانہ ہیں اور اپنے مشاہدے اور تجربات کو تحریری شکل دینا ان کا پسندیدہ کام ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔