مغلبھیں مزار: صدیوں کے تقدس کا امین
مغلبھیں مزار: صدیوں کے تقدس کا امین
زندگی کی خوبصورتی بھی فقط اس وجہ سے ہے کہ یہ تغیر کے عمل سے گذرتی رہتی ہے اور ٹھہرتی نہیں۔ دراصل اگر زندگی کی لازوالیت ہے تو وہ بھی اس لیے کہ یہ گذرے ہوئے پلوں کو چھوڑتی نہیں ہے بلکہ اپنے ساتھ جوڑ کر رکھتی ہے۔
آپ اگر ننگر ٹھٹھہ سے دریائے سندھ پار کر کے سجاول کے چھوٹے سے شہر میں آئیں تو جنوبی سندھ کی ڈیلٹائی پٹی کا اپنا منفرد رنگ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے، اور اس طرح آپ جب اس شہر سے گزر کر ساحلی پٹی کے آخری چھوٹے سے شہر ’جاتی‘ روانہ ہوتے ہیں تو ان 35 کلومیٹرز کی دوری سات صدیوں تک پھیل سی جاتی ہے۔
تاریخ کی اس راہ گزر کے ایک سرے پر میں کھڑا ہوں اور دوسرا سرا سات صدیوں کے اُن گزرے ہوئے عرصے میں دفن ہے جسے ہم ماضی کے مزار کہتے ہیں۔ گزرے وقت کے دیپک کی روشنی میں ڈھونڈنے کی تلاش کریں تو تاریخ کے اوراق پر کئی تحریریں پڑھنے کو مل جائیں گی۔
جاتی کے پرانے شہر کے شمال میں ایک قدیم درگاہ ہے جسے عرف عام میں ’’مگر بھیں‘‘، ’’مغلبھیں‘‘ اور ’’بھیانی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ درگاہ ’’شیخ سلامت‘‘ نامی بزرگ کی ہے۔