دنیا

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس: بھارت اور افغانستان کی پاکستان پر تنقید

میں اس بات کی وضاحت چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے، افغان صدر اشرف غنی کا خطاب

بھارت کے شہر امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا چھٹا وزارتی اجلاس شروع ہوگیا جس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کررہے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی نے کانفرنس کا مشترکہ طور پر افتتاح کیا اور دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان پر شدید تنقید کی۔

افغان صدر اشرف نے کہا کہ ’میں الزام تراشیوں کا تبادلہ نہیں چاہتا، میں اس بات کی وضاحت چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے‘۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اشرف غنی نے افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ افغانستان کو دہشت گردی سے لڑنے کے لیے امداد چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے، پاکستان نے افغانستان کی ترقی کے لیے 50 کروڑ ڈالر امداد کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ رقم دہشت گردی کو قابو کرنے کے لیے استعمال ہونی چاہیے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کی پاکستان اور ہندوستان کو ثالثی کی پیشکش
کانفرنس کے شرکاء کا گروپ — فوٹو / اے ایف پی

اشرف غنی کے خطاب کے دوران مشیر خارجہ سرتاج عزیز بھی وہاں موجود تھے۔

اشرف غنی نے مزید کہا کہ ’گزشتہ برس افغانستان میں ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی، یہ ناقابل قبول ہے، کچھ عناصر اب بھی دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں، ایک سینیئر طالبان رکن نے حال ہی میں کہا کہ اگر انہیں پاکستان میں محفوظ پناہ گاہ نہ ملتی تو وہ ایک مہینہ بھی نہیں چل سکتے‘۔

انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ ’کراس بارڈر سرگرمیوں کو جانچے‘۔

افغان صدر نے بھارت کے تعاون کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’بھارت کا تعاون ہمیشہ غیر مشروط ہوتی ہے، دونوں ملکوں کے تعلقات مشترکہ اقدار اور بھروسے پر مبنی ہیں‘۔

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان مصافحہ ہوا تاہم باضابطہ ملاقات نہیں ہوئی۔

ہندوستان کے این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی نے مشترکہ طور پر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا افتتاح کیا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ہونے والے علیحدہ ملاقات بھی ایک گھنٹے تک جاری رہی جبکہ اس سے قبل نریندر مودی اور اشرف غنی نے مشترکہ طور پر گولڈن ٹیمپل کا بھی دورہ کیا تھا۔

دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں نمٹنا ہوگا

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے خطاب میں افغانستان سے دوستانہ تعلقات کی بات کرتے رہے— فوٹو بشکریہ این ڈی ٹی وی

کانفرنس کے افتتاح کے بعد اپنے خطاب میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ’ہمارا آج یہاں جمع ہونا افغانستان میں دیر پا امن اور سیاسی استحکام کے عزم کا اعادہ کرتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ چیلنجز بہت بڑے ہیں لیکن ہم ان سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

نریندر مودی نے کہا کہ دہشت گردی افغانستان اور خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے، ہمیں دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں نمٹنا ہوگا۔

مزید پڑھیں: بھارت اور افغانستان میں ہوائی کارگو کا امکان

ہمیں دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف سخت اور مشترکہ عزم کا اظہار کرنا ہوگا جو قتل و غارت اور خوف پھیلانے میں مصروف ہے۔

اپنے خطاب میں انہوں نے بھارت، افغانستان اور ایران کے تعاون سے بننے والے چاہ بہار بندرگاہ کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس سے افغانستان کو فائدہ پہنچے گا اور اس کی معیشت کو دنیا کے دیگر حصوں سے جوڑ دے گا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے تجارت کا فضائی روٹ بنانے کی خواہش ہے ، تجارت ایک ارب ڈالر تک بڑھائیں گے۔

افغان صدر کے الزامات بے بنیاد، پاکستان امن چاہتا ہے: سرتاج عزیز

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مشیرہ خارجہ سرتاج عزیز سے مصافحہ کررہے ہیں— فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان

مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے افغان صدر اشرف غنی کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے افغانستان میں دیرپا امن کے لیے مشترکہ اور بامقصد حکمت عملی بنانے کا مطالبہ کیا۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق مشیر خارجہ نے کہا کہ ’علاقائی تعاون اور رابطے کے لیے تمام مسائل کا پر امن حل نکالنا ضروری ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں دیر پا امن کے لیے ہر طرح کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہے، افغانستان کو پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

قبل ازیں امرتسر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان کی ترجیح امن ہے اور وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا خواہاں ہے۔

پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے کہا کہ ’دہشت گردی ان مسائل میں سے ایک ہے جس پر بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات کی ضرور ہے، دونوں ملکوں کو میڈیا میں بیان بازی کے بجائے مل بیٹھ پر معاملات طے کرنے چاہئیں‘۔

انہوں نے کہا کہ اگر واضح اور باضابطہ مذاکرات نہیں ہوں گے تو میڈیا کے ذریعے ہونے والی باتوں سے اختلاف اور منفی تاثر کو تقویت ملے گی۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان خطے کے امن و سلامتی کے لیے پرعزم ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھارت میں ہونے والی اس کانفرنس میں شریک ہیں۔

سرتاج عزیز کا سشما سوراج کے لیے گلدستہ

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے امرتسر میں افغان صدر اشرف غنی سے علیحدہ ملاقات کی — فوٹو بشکریہ دفتر خارجہ

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی سے علیحدہ ملاقات بھی کی جبکہ ان کی ملاقات بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول سے بھی ہوئی۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کی جانب سے ٹوئیٹر پر جاری بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہے۔

دفتر خارجہ کے مطابق سرتاج عزیز نے بھارتی وزیر برائے خارجہ امور سشما سوراج کی رہائش گاہ پر گلدستہ بھی بھجوایا اور ان کی جلد صحتیابی کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز گزشتہ روز ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے امرتسر پہنچے تھے۔

واضح رہے کہ افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک کے درمیان معاشی اور سیکیورٹی تعاون بڑھانے،دہشتگردی، انتہاپسندی اور غربت جیسے مشترکہ مسائل سے نمٹنے کے لیے 2011 میں شروع ہونے والے ہارٹ آف ایشیا کے اس سلسلے میں پاکستان، بھارت، افغانستان، آذربائیجان، چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔

ڈیزاسٹر مینیجمنٹ، انسداد دہشت گردی، انسداد منشیات، تجارت اور سرمایہ کاری، علاقائی انفرااسٹرکچر اور تعلیم وہ 6 اہم پہلو ہیں جن پر یہ 14 ممالک 2013 سے پراعتماد اقدامات کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اس عمل میں 17مغربی ممالک اور 12 بین الاقوامی اداروں کی حمایت بھی شامل ہے جو اپنے اعلیٰ نمائندگان اس کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ کرتے ہیں۔

پاکستان کی شرکت، برف پگھل پائے گی؟

بھارت سے تعلقات میں کشیدگی کے باوجود پاکستانی حکومت کی جانب سے اس سال ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کا اہم فیصلہ سامنے آیا، باوجود اس کے کہ نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس کو نئی دہلی کی جانب سے سبوتاژ کیا گیاتھا۔

اس بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ کیا دونوں ممالک اس کانفرنس کو دوطرفہ بات چیت کے لیے استعمال کریں گے جبکہ بھارتی وزیر برائے خارجہ امور کے ترجمان وکاس سواروپ کی جانب سے اس قسم کی کسی بھی گنجائش کو پہلے ہی رد کیا جاچکا ہے۔

وکاس سواروپ کا ایک پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ دہشت گردی کے جاری سلسلے میں مذاکرات نہیں ہوسکتے، بھارت دہشت گردی کو دو طرفہ تعلقات کا نیا معمول نہیں بننے دے گا۔

دوسری جانب بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ پاکستان ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر بھی بھارت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن ہماری پہلی توجہ افغانستان پر رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ دو طرفہ بات چیت ہو یا نہ ہو مگر پاکستان نے افغانستان میں قیام امن، بہتری اور ترقی کے لیے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ مضبوط اور ترقی یافتہ افغانستان ہمارے لیے نہایت اہم ہے۔