پاکستان

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ترک اساتذہ کو ریلیف نہ دینے کی وجہ بتادی

ملک میں داخلے اور قیام کی اجازت دینا خالصتاً ریاست کی صوابدید ہے،اجازت دیئے جانے کے بعد ختم بھی کی جاسکتی ہے،جسٹس عامر

اسلام آباد: دیگر صوبوں کی ہائی کورٹس نے پاک ترک اسکولز کے غیر ملکی ٹیچرز کی ملک بدری کے حکومتی احکامات کو معطل کیا تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ایسا نہیں کیا گیا اور اب عدالت نے ایسا نہ کرنے کی 8 وجوہات بتائی ہیں۔

اپنے تفصیلی فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے وضاحت کی کہ کیوں دو ترک ٹیچرز اور چیئرمین پاک ترک ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے 400 سے زائد اساتذہ اور ان کے اہل خانہ کی ملک بدری کے خلاف دائر درخواست برقرار رکھنے کے قابل نہیں تھی۔

لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ نے پاک ترک اسکولز کے عملے کو عارضی ریلیف فراہم کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ نے پاک ترک اسکولز کے عملے کی ملک بدری روک دی

درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے جون میں وزارت داخلہ کو ویزا کی مدت میں اضافے کی درخواست دی تھی لیکن 11 نومبر کو عملے اور فیکلٹی ممبرز کو ہدایات موصول ہوئیں کہ وہ 20 نومبر تک پاکستان چھوڑ دیں۔

جسٹس فاروق نے اپنے تفصیلی حکم میں لکھا کہ درخواستیں اگست میں آگے گئی تھیں جبکہ ترک ٹیچرز کے ویزے ستمبر میں ختم ہوگئے تھے تاہم 14 نومبر کو انہیں 20 نومبر تک رہنے کی اجازت دے دی گئی۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ’ملک میں داخلے اور قیام کی اجازت دینا خالصتاً خودمختار ریاست کی صوابدید ہے، قیام کی اجازت دیے جانے کے بعد ختم بھی کی جاسکتی ہے‘۔

جسٹس فاروق نے اپنے حکم نامے میں گزشتہ برس جون میں کونوینٹ اسکول کی فیکلٹی کی ویزا درخواستوں کو مسترد کیے جانے کا حوالہ بھی دیا جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ ’غیر ملکیوں کو پاکستان میں رہنے کی اجازت دینا ایک طرح کی رعایت ہے اور اسے ملک میں رہنے کا حق نہیں کہا جاسکتا‘۔

جسٹس فاروق نے مغربی پاکستان کے ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ کی جانب سے 1962 میں دیے جانے والے فیصلے کا بھی حوالہ دیا اور موقف اپنایا کہ ’حکومت پاکستان اس بات کہ پابند نہیں کہ وہ کسی خاص تاریخ کے بعد غیر ملکی شہری کو ملک میں رہنے کی اجازت نہ دینے کی وجہ بتائے‘۔

مزید پڑھیں: پاک ترک اسکولز کے عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ کے 1980 کے فیصلے کو بھی مد نظر رکھا گیا جس کے مطابق ’ہر خود مختار ریاست یہ اختیارات رکھتی ہے کہ وہ کسی کو اپنی حدود میں داخلے سے روک سکے اور ریاست کے اس حق کو فطری انصاف کے اصولوں یا انصاف کی بنیاد پر محدود نہیں کیا جاسکتا‘۔

فیصلے میں 1997 میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا بھی تذکرہ کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’حکومت اس بات کی مجاز ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو ملک میں قیام کی اجازت دے یا پھر کسی شخص کو جو ملک میں رہنے کا اہل نہیں اسے ڈی پورٹ کردے‘۔

فیصلے میں 1986 میں سندھ ہائی کورٹ کے دیے گئے فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’فارن ایکٹ 1946 کے سیکشن 3 کے تحت وفاقی حکومت یہ اختیار رکھتی ہے کہ وہ کسی غیر ملکی کو حکم دے کہ وہ پاکستان یا ملک کے کسی خاص علاقے میں قیام نہیں کرسکتا‘۔

جسٹس فاروق نے موقف اپنایا کہ ’حکومت کو اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ غیر ملکیوں کی پاکستان میں داخلے اور روانگی کو ممنوع قرار دے، ریگولیٹ کرے یا پھر محدود کرسکے لہٰذا اس ضمن میں وزارت داخلہ کی جانب سے استعمال کیے گئے اختیارات دائرہ اختیار سے باہر نہیں اور انہیں اختیارات کا غلط استعمال قرار نہیں دیا جاسکتا‘۔

آخر میں اپنے فیصلے میں انہوں نے کہا کہ ’مذکورہ بالا فیصلوں اور اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے 11 نومبر 2016 اور 14 نومبر 2016 کے خطوط (ٹیچرز کی بے دخلی سے متعلق خطوط) پر اعتراضات درست نہیں‘۔


یہ خبر 4 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی