پی ایس او کا گردشی قرضے کم اور وصولیاں بڑھانے کا دعویٰ
اسلام آباد: حکومت نے انرجی بحران پر قابو پانے اور پاکستان اسٹیٹ آئل(پی ایس او) کے گردشی قرضے کم کرنےکا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حیران کن طور پر جون 2013 سے پی ایس او نے ریکارڈ 250 ارب روپے کی وصولیاں کیں۔
پاکستان کی سب سے بڑی فیول کمپنی کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں وصولیاں پہلی بار دیکھنے میں آئی ہیں۔
پی ایس او انتظامیہ نے وزارت پانی و بجلی ، پیٹرولیم و قدرتی وسائل اور وزارت خزانہ کو تحریری طور پر اپنی مالی مشکلات اور اب مالی بہتری کی صورتحال سے متعلق رپورٹ جمع کرادی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: توانائی بحران: بڑے منصوبے ناکام، حکومتی حکمت عملی
حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ پی ایس او کی جانب سے اب تک مجموعی طور پر 250 ارب روپے کی وصولیاں کی جا چکی ہیں۔
پی ایس او کی جانب سے یہ وصولیاں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب محکمہ پانی و بجلی نے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ گزشتہ مالی سال 2015 میں 47 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ توانائی کے شعبے پر321 ارب روپے کے مجموعی گردشی قرضے ہیں اور پاور ہولڈنگ کمپنیوں ( پی ایچ سی ایل) کے 335 ارب روپے کے قرضے اس کے علاوہ ہیں جن کو صارفین کے ٹیرف سے سروسنگ چارجز کی ادائیگی کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 27 فیصد بجلی لاگت کی کٹوتیوں کے باوجود پاور سیکٹر کی وصولیوں میں66 فیصد اضافہ ہوا، جس سے نہ صرف توانائی کی صورتحال بہتر ہوئی بلکہ پاور سیکٹر کے انتظامی معاملات میں بھی بہتری آئی ۔
مزید پڑھیں: پیٹرول بحران کیسے اور کیوں ہوا؟
وزارت خزانہ کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ کمپنی کو سب سے زیادہ وصولیاں سرکاری اور کبھی بل نہ دینے والے اداروں سے ہوئیں، سرکاری اداروں سے براہ راست 185 ارب روپے کی وصولی ہوئی، جب کہ134 ارب روپے توانائی کی پیداوار بڑھانے والی کمپنیوں اور 14 ارب 20 کروڑ روپے کی وصولی پاکستان ایئرلائن سے ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق 10 ارب کی وصولی حکومت کے مختلف اداروں سے ٹیرف کے فرق سے ہوئی جب کہ 20 ارب 50 کروڑ کی وصولی کوٹ ادو پاور کمپنی( کیپکو)سے ہوئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ نجی پاور کمپنیوں کی بقایاجات میں اضافہ ہوا ہے، حب پاور کمپنی کی جانب بقایات جات بڑھ کر 64 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جب کہ سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی لمیٹڈ(ایس این جی پی ایل) کی جانب 7 ارب 10 کروڑ روپے کی بقایا جات ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ مالی سال 30 جون کے اختتام تک پاور کمپنیوں سے ریکارڈ 648 ارب کی وصولیاں ہوئیں، جن میں سے زیادہ تر سرکاری بجلی کمپنیاں تھیں۔
وزیر اعظم ہاؤس میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق تمام بجلی کمپنیوں کو چھتری فراہم کرنے والی پاکستان ایکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کی وصولیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، اس سال پیپکو کی مجموعی وصولیاں 94.4 فیصد ہوئیں جب کہ گزشتہ مالی سال 2015 -2016 میں پیپکو کی وصولیاں 89.2 فیصد تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں توانائی کا بحران، عوام پریشان
وصولیوں میں بہتری کے بعد مجموعی طور پر پاور سیکٹر کا خسارہ 18.7 فیصد سے کم ہوکر 17.9 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاور سیکٹر میں سال 2011 کے بعد سب سے زیادہ وصولیاں ہوئیں، سال 2011 میں پاور سیکٹر کے 286 ارب روپے کے بقایا جات تھے جو 2013 تک بڑھ کر 411 ارب روپے تک ہوگئے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت آنے کے بعد وصولیوں میں بہتری ہوئی اور جون 2014 تک 513 ارب روپے کی وصولیاں ہوچکی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق 2015 میں وصولیوں میں مزید 25 فیصد اضافہ ہوا اور 633 ارب روپے کی وصولیاں کی گئیں ، جب کہ اس سال جون تک 684 ارب 60 کروڑ روپے کی وصولیاں کی گئیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ نجی شعبےکو دگنے بل بھیجے گئے جو 423 ارب روپے سے بھی زائد تھے، جب کہ 2012 تک ایسے بلوں کی مالیت 197 ارب روپے تھی۔ نجی شعبے کی جانب سے 35 دن کے اندر بل جمع نہ کرانے پر ان کی بجلی بھی منقطع کردی جاتی ہے۔
- یہ رپورٹ 03 دسمبر 2016 کو ڈان میں شائع ہوئی*