اسٹیفن ہاکنگ — رائٹرز
اسٹیفن ہاکنگ کا تعلق ایک ایسے ترقی یافتہ ملک سے ہے جہاں معذور افراد کی ذہنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور ان کی معاشرے میں بھرپور شراکت کو قائم رکھنے کے لیے انفراسٹرکچر میں بھی خاصی تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے معاشرے میں معذور افراد کو متحرک رکھنے کے لیے عمارتوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو قابل رسائی بناتے ہیں۔
وہاں کے معاشرے معذور افراد کو بھی اپنی ہی طرح خدا کی مخلوق سمجھتے ہوئے اپنے رویوں میں تبدیلی لے آتے ہیں۔ ہمارے سامنے اس کی ایک بڑی مثال اسٹیفن ہاکنگ ہیں۔ انہوں نے شدید ترین معذوری کا شکار ہونے کے باوجود اپنی زندگی میں حیرت انگیز سنگ میل عبور کیے۔
پڑھیے: حقوقِ معذورین: اسلام، مغرب اور پاکستان
معذوری کا شکار ہونے کے باوجود انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی اور فزکس سے متعلق کئی ریسرچ پیپرز تحریر کیے۔ اُن کا زیادہ تر کام بلیک ہولز اور کاسمولوجی (علمِ کائنات) کے میدان میں ہے۔
’وقت کی مختصر تاریخ' کے عنوان کے ساتھ ہاکنگ نے ایک شہرہ آفاق کتاب تحریر کی، جسے ایک انقلابی حیثیت حاصل ہے۔ اپنی معذوری کی وجہ سے وہ بول نہیں سکتے اس لیے اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے یا صفحے پر اتارنے کے لیے ایک خاص کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہیں، جو ان کے خیالات کو آواز دیتا ہے۔
دنیا سے اُن کا رابطہ صرف آنکھوں کے اشاروں سے ہی ہو پاتا ہے۔ اس کرب ناک بیماری کے باوجود وہ اب بھی مذاق کرتے ہیں، مقالات لکھتے ہیں اور یونیورسٹیز میں لیکچرز دیتے ہیں۔
اسٹیفن ہاکنگ عالمی ادارہ صحت کی طرف سے شائع ہونے والی World report on Disability میں رقم طراز ہیں کہ، "شدید معذوری کبھی بھی میری زندگی کی کامیابیوں میں رکاوٹ نہیں بنی۔ میں بھرپور جوانی میں ہی شدید معذوری کا شکار ہو گیا تھا لیکن میری معذوری مجھے فزکس کے میدان میں ایک ممتاز کریئر بنانے اور ایک خوشحال ازدواجی زندگی بسر کرنے سے کبھی روک نہ سکی۔
"مجھے ہمیشہ سے پہلے درجے کی طبی دیکھ بھال اور ذاتی مددگار کی ایک ٹیم میسر رہی ہے، جن کی بدولت میں نے ہمیشہ عزت و وقار کے ساتھ کام کیا۔ میرے گھر اور میرے کام کی جگہ کو میرے لیے قابل رسائی بنا دیا گیا ہے۔ کمپیوٹر کے ماہرین مجھے ایک مواصلاتی نظام اور ایک تقریر مرکب ساز (speech synthesizer) کی مدد سے لیکچرز دینے، کاغذات تحریر کرنے اور حاضرین کے ساتھ بات چیت کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
پڑھیے: ٹانگیں نہیں، پر ثابت قدمی کا جواب نہیں
لیکن مجھے احساس ہے کہ میں بہت خوش قسمت ہوں (کیوں کہ میں ایک ترقی یافتہ ملک کا معزز معذور شہری ہوں)۔ تھیوریٹکل فزکس میں میری کامیابیاں اس بات کی ضامن ہیں کہ میں ایک قابلِ قدر زندگی بسر کر رہا ہوں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے بیشتر معذور افراد انتہائی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں، انہیں اپنی زندگی کو برقرار رکھنے اور قابلِ قدر روزگار حاصل کرنے کے لیے بے شمار مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔"
اسٹیفین ہاکنگ کے الفاظ ترقی پذیر ممالک کے اُن معذور افراد پر صادق آتے ہیں جہاں انہیں اکیسویں صدی میں بھی صرف خدا ترسی اور ہمدردی کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔
ایسے ممالک میں بھی معذور افراد ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آزادانہ طرز زندگی اپنا سکتے ہیں بشرط یہ کہ وہاں کا معاشرہ، معذور افراد کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ان حقوق کی پاسداری کے لیے مشترکہ جدوجہد کرے۔
اگرترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں تعمیرات کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کر دیا جائے تو یہاں پر بھی معذور افراد ٹیکنالوجی کے استعمال سے آزادانہ طرزِ زندگی باآسانی اختیار کرسکتے ہیں۔
اگر پاکستان میں تمام سرکاری و نجی عمارات اور پبلک ٹرانسپورٹ کو معذور افراد کے لیے قابل رسائی بنا دیا جائے تو جسمانی معذور افراد باآسانی دستی یا الیکٹرانک وہیل چیئر کی مدد سے معاشرہ میں اپنی شراکت ممکن بنا سکتے ہیں۔
امریکا، کینیڈا اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک میں موٹر کار کمپنیاں معذور افراد کے لیے بھی گاڑیاں ڈیزائن کرتی ہیں۔ اگر ان گاڑیوں کو پاکستان میں بیرونِ ممالک سے درآمد کیا جائے تو بھاری ٹیکس عائد ہو جاتے ہیں جس کے باعث معذور افراد انہیں خرید نہیں پاتے۔
پڑھیے: معذور نہیں، منفرد بچے
کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں معذور افراد کی چند این جی اوز موٹر بائیک اور گاڑیوں کے ڈیزائن میں تبدیلی لا کر خصوصی افراد کو متحرک بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اگر مقامی سطح پر ملکی موٹر کار کمپنیاں خصوصی افراد کے لیے گاڑیاں ڈیزائن کر کے مارکیٹ میں فروخت کریں تو درآمدی گاڑیوں کی نسبت ارزاں ہونے کے باعث لاکھوں معذور افراد ان سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں نت نئی ایجادات اور تجربات کی بدولت پاکستان میں نابینا افراد بھی تیزی سے آزادانہ طرز زندگی اپنا رہے ہیں۔ کمپیوٹر میں موجود تحریروں کو آواز میں بدلنے والے سافٹ ویئر JAWS کی بدولت کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر موجود مواد نابینا افراد کی دسترس میں آ چکا ہے۔
اسمارٹ فونز میں موجود Talking System کی بدولت نابینا افراد باآسانی انہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ بصارت سے محروم افراد بریل کی مدد سے لکھنا پڑھنا سیکھتے تھے۔ اگر کوئی کتاب بریل میں دستیاب نہ ہوتی تو کسی دوسرے فرد کی معاونت کے بغیر وہ کتاب نہیں پڑھ پاتے ہیں۔
خوش قسمتی سے اب بریل پرنٹرز (Braille Embossers) کی بدولت ہزاروں کتابیں بریل میں باآسانی تبدیل کی جاسکتی ہیں۔ جدید ریکارڈنگ آلات کی مدد سے تدریسی اور ادبی کتابوں کو باآسانی ریکارڈ کیا جاسکتا ہے اور بصارت سے محروم افراد آڈیو بُکس کی صورت میں علم کی دولت سے استعفادہ کر سکتے ہیں۔
پڑھیے: اپنی مفلوج بہن کی تیمارداری نے مجھے کیا سکھایا؟
فیصل آباد کی ایک نجی یونیورسٹی کے طُلبا نابینا افراد کے لیے Voice Stick بنانے کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں۔ اس اسٹک میں نصب سینسرز بلند و نشیبی جگہ کی نشاندہی اور دائیں بائیں مڑنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس اسٹک میں ایک ہی جگہ میں مختلف سمتوں کے لیے پیمائش بھی درج کی جاسکتی ہے جس کی بدولت نابینا افراد باآسانی حرکت کر سکتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سرپرستی میں ان تجربات کی تشہیر کی جائے اور کم قیمت پر فروخت کرنے کے لیے حکومت سبسڈیز مہیا کرے۔
پاکستان میں معذور افراد کے لیے کمیونٹی کی بنیاد پر بحالی (Community Based Rehabilitation) کی اشد ضرورت ہے۔
آج 3 دسمبر 2016 (معذور افراد کے عالمی دن) کے موقع پر حکومت اور معاشرہ پاکستان کے لاکھوں معذور افراد کو آزادانہ طرز زندگی مہیا کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کا پختہ عزم کرے، اور اس کے لیے ہمیں ماحولیاتی رکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے رویوں میں بھی تبدیلی لانی ہوگی۔
اگر آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جنہوں نے معذوری کو اپنی زندگی کی رکاوٹ نہیں سمجھا تو ان کی کہانی ہمیں blog@dawn.com پر ای میل کیجیے۔