پاکستان

’پاکستان مذاکرات کیلئے بھارت سے بھیک نہیں مانگے گا‘

پاکستان کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھے گا، کشمیر سمیت خطے کے تمام معاملات کا واحد حل مذاکرات ہی ہیں:، عبدالباسط

نئی دہلی:بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر، دہشت گردی اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر فائرنگ سمیت دیگر معاملات پر مذاکرات کے لیے بھارت سے بھیک نہیں مانگے گا۔

پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے کے مسائل مذاکرات سے حل کرنے کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کر چکا ہے، اب بھارت کے جواب کا انتظار ہے۔

بھارتی اخبار دی ہندو کو دیئے گئے انٹرویو میں پاکستانی کمشنر نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعطل کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کی جانب سے مذاکرات پر اپنی رائے کے بعد ہندوستان مذاکرات کی پیش کش کے لیے تنگ نظری سے کام لے رہا ہے، اگر بھارت مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے تو پاکستان انتظار کرتا رہے گا جبکہ پاکستان ہمیشہ تعطل کو ختم کرنے کی کوشش کرتا رہے گا، کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ تمام مسائل کا حل صرف مذاکرات میں ہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہندوستان کا مسئلہ کشمیر پر مذاکرات سے انکار

ایک سوال کے جواب میں عبدلباسط کا کہنا تھا کہ پاک۔ بھارت معاملات کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان نے کئی بار سفارتی کوشش کی مگر حالات بہتر نہ ہوسکے، پاکستان نے افغانستان میں قیام امن، بہتری اور ترقی کے لیے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ مضبوط اور ترقی یافتہ افغانستان ہمارے لیے نہایت ہی اہم ہے۔

پاکستانی ہائی کمشنر کے مطابق پاکستان کو احساس ہے کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس افغانستان سے متعلق ہے، مگر یہ کانفرنس پاکستان اور بھارت کے دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے، امرتسر کانفرنس دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کی برف پگھلانے کا اچھا موقع ہے۔

ایل او سی پر حالیہ کشیدگی سے متعلق جواب میں عبدالباسط نے کہا کہ 2003 میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی وجہ سے دونوں ممالک میں اعتماد کی بحالی ہوئی، اسی لیے ہی گزشتہ ہفتے پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری انٹیلی جنس افسر(ڈی جی ایم او) نے بھارتی ہم منصب سے رابطہ کیا، ہمیں اعتماد کی بحالی کے لیے متواتر اقدامات اٹھانے چاہئیے۔

مزید پڑھیں: 'پاکستان مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل

کشمیر کے معاملے پر گفتگو میں پاکستانی کمشنر کا کہنا تھا کہ پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی اخلاقی حمایت جاری رکھے گا، رواں سال 8 جولائی سے کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر پاکستان سمیت عالمی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے، کشمیر میں سنگین صورتحال کے پیش نظر ہی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن اور اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھیجنے کا مطالبہ کیا۔

عبدالباسط نے مزید کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے پاکستانی دورے کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان کشمیر سمیت تمام معاملات پر مذاکرات کرنے پر اتفاق ہوا تھا، مگر اب اسلام آباد سمجھتا ہے کہ نئی دہلی کو مذاکرات سے خاص دلچسپی نہیں ہے۔

پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کی مدد کرنےسے متعلق سوال کے جواب میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ پاکستان خود دہشت گردی سے متاثرہ ملک ہے، پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا رہا ہے، پاکستان نے کئی دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی بھی کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’ہندوستان کو پاکستان سے مذاکرات میں کوئی تذبذب نہیں‘

پاکستان کے روس سے بڑھتے تعلقات کے حوالے سے عبدالباسط نے کہا کہ پاکستان اور روس کے بڑھتے تعلقات پر بھارت کو پریشان نہیں ہونا چاہئیے، روس کے بھارت اور چین کے ساتھ بھی تعلقات ہیں، جیسے چین اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات سے پاکستان اور چین کے اسٹریٹجک تعلقات میں کوئی فرق نہیں پڑا اسی طرح بھارت کے بھی کسی سے تعلقات خراب نہیں ہوں گے۔

پاکستانی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہونے والی سارک سربراہی کانفرنس کے ملتوی ہونے کا نقصان تمام سارک ممالک کو ہوا۔

خیال رہے کہ پاکستان نے بھارتی شہر امر تسر میں 3 اور 4 دسمبر کو ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان طویل المدتی امن کے لیے کانفرنس میں شرکت کر رہا ہے، ہارٹ آف ایشیا علاقائی تعاون اور رابطوں کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم ہے جس کا مقصد خطے میں طویل المدتی امن کا قیام ہے۔

پانچویں 2 روزہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان، افغانستان اور ہندوستان کے علاوہ چین، ایران، روس، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، آذربائیجان، کرغزستان، قازقستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے وزرائے خارجہ یا اعلیٰ سطح کے وفود شرکت کریں گے۔

کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی شرکت کر رہی ہیں۔

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا قیام 2011 میں افغانستان اور ترکی کی کوششوں سےعمل میں آیا۔

کانفرنس کا مقصد افغانستان اور دیگر ممالک میں دہشت گردی، شدت پسندی اور غربت سے نمٹنے کے لیے معاشی اور سیکیورٹی تعاون کو بڑھانا ہے۔