نقطہ نظر

پاکستان پیپلز پارٹی کے 49 برسوں کی تصویری کہانی

پارٹی کی بنیاد 1967 میں ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے 49 برسوں کی تصویری کہانی

ندیم ایف پراچہ

ایک باغی بیٹا

ایک خیال کی ابتدا: 1966 میں ایوب خان حکومت سے نکال دیے جانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے مارکسسٹ نظریات رکھنے والے جے اے رحیم (سامنے سے دائیں جانب) سے روابط بنے۔ دونوں نے ایک ترقی پسند سیاسی جماعت تشکیل دینے کے تصور پر غور کرنا شروع کیا۔
—فوٹو بشکریہ ڈاکٹر غلام قاضی.

بھٹو نے شاعر، پینٹر اور دانشور حنیف رامے (دائیں) سے بھی ان خیالات کا تبادلہ کیا۔ رامے لاہور میں دانشوروں کے ایک گروپ کی قیادت کر رہے تھے جو سوشلزم اور پاکستانی قوم پرستی کو ’اسلام میں موجود مساوات کے نظریات’ کے ساتھ ملا کر ایک مخلوط نظریے کی تشکیل پر کام کر رہا تھا۔ رامے نے اسے اسلامی سوشلزم کا نام دیا تھا۔

بھٹو کو سب سے پہلے بائیں بازو کے طلباء گروپس کی جانب سے حمایت حاصل ہوئی۔ یہ تصویر 1966 کے اواخر میں کراچی کے ایک کالج میں ہونے والی ایک تقریب کی ہے جس میں بھٹو مہمان خصوصی کے طور پر شریک تھے۔ معراج محمد خان (تقریر کر رہے ہیں) نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کے انتہائی جذباتی صدر تھے؛ رشید حسن (بھٹو کے ساتھ بیٹھے ہیں) بھی این ایس ایف کے اہم رکن تھے۔ طلباء نے بھٹو پر ایک انقلابی سوشلسٹ جماعت تشکیل دینے کے لیے زور ڈالا۔

ایک عزم

تشکیل: بھٹو نے لاہور میں 30 نومبر 1967 کو اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ اس جماعت کا پہلا کنوینشن ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا تھا۔ اس جماعت کو ترقی پسند سیاست کے مختلف نظریات کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بیان کیا گیا۔ اس جماعت کے تشکیلی کاغذات میں آزاد/غیر جانبدار خارجہ پالیسی (سرد جنگ کے تناظر میں)، پارلیمانی جمہوریت متعارف کروانے، سوشلسٹ اقتصادی اصلاحات، ایک روشن خیال اور ترقی پسند سماج، اور ایوب کے ’چند خاندانوں پر محیط سرمایہ دارنہ نظام’ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مگر مرکزی دھارے کے میڈیا کے چند حلقے اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ مندجہ ذیل تصویر پی پی پی کے پہلے کنوینشن پر ایک اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کی ہے، جس میں پی پی پی کو مذاق کا نشانہ بناتے ہوئے 'انوکھے نظریات رکھنے والوں' اور ان 'خفیہ کمیونسٹوں' کی پارٹی قرار دیا گیا جنہیں سنجیدہ نہیں لیا جانا چاہیے۔

کراچی میں طلبا کا احتجاجی مظاہرہ۔ پی پی پی ایوب حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر برپا کی جانے والی احتجاجی مہم میں آگے آگے تھی۔ مظاہروں کی شروعات بائیں بازو کی طلبا تنظیموں نے کی اور پھر جلد ہی اس میں مزدور، تجارتی اور کسان تنظیمیں، اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی شریک ہو گئیں۔ ایوب خان 1969 کے اوائل میں استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے۔

مہم کا سلسلہ: بھٹو 1970 میں ہونے والے تاریخی انتخابات سے چند روز قبل پنجاب میں پی پی پی کے ایک جلسے کی قیادت کر رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر منعقد ہونے والے پہلے انتخابات تھے۔
—فوٹو بشکریہ ڈاکٹر غلام قاضی.

بھٹو 1970 میں کراچی میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے ہیں۔ 1970 کے انتخابات کے لیے جماعت کا منشور ایک مفصل دستاویز تھا جسے بھٹو، ڈاکٹر مبشر حسن، حنیف رامے اور مایہ ناز ٹریڈ یونینسٹ ایس راشد نے مشترکہ طور پر تحریر کیا تھا۔ منشور میں ایک فلاحی ریاست اور ایک روشن خیال اور ترقی پسند معاشرے کی تشکیل کے لیے بڑے پیمانے پر سیاسی، اقتصادی اور زمینی اصلاحات کا وعدہ کیا گیا۔ منشور میں اسلام کو پارٹی کا مذہب، سوشلزم اس کی معیشت اور جمہوریت کو اس کی سیاست قرار دیا گیا تھا۔

1970 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے ایک پی پی پی امیدوار جشن منا رہے ہیں۔ پی پی پی نے مغربی پاکستان کے دو بڑے صوبوں (پنجاب اور سندھ) میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی بلوچستان اور کے پی میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کامیاب رہی۔ بنگالی قوم پرست جماعت عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ انتخابات میں زیادہ تر مذہبی جماعتوں کو بدترین شکست ہوئی۔

بھٹو دسمبر 1971 میں اسلام آباد ایئر پورٹ پر مقامی اور غیر ملکی صحافیوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ بھٹو یہاں تب پہنچے جب پاکستان نے خانہ جنگی میں اپنا مشرقی بازو گنوا دیا اور برہم فوجی افسران کے ایک گروپ نے جنرل یحییٰ سے جبری استعفیٰ لیا۔ پی پی پی نے 1970 کے انتخابات میں مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں، اس لیے افسران نے نئی حکومت بنانے کے لیے بھٹو کو دعوت دی۔

20 دسمبر 1971 کو جنرل یحییٰ (دائیں) حکومت ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کر رہے ہیں۔
تصویر بشکریہ: ڈاکٹر غلام قاضی۔

ریاست اور حکومت کے سربراہ کے طور پر بھٹو کے قوم سے پہلے خطاب کی ایک ٹی وی کلپ۔ انہوں نے خطاب انگلش میں کیا اور ایک جمہوری، ترقی پسند اور فخرمند ’نئے پاکستان’ کی تعمیر کا وعدہ کیا۔

بھٹو اپنی کابینہ کے چند ارکان سے ملاقات کر رہے ہیں۔

1972 میں شائع ہونے والا ایک اخباری اشتہار، جس میں پی پی پی حکومت کی نیشنلائزیشن (وسائل قومی ملکیت میں لینے کے عمل)/سوشلسٹ پالیسیوں کی ستائش کی گئی ہے۔

بھٹو بلوچستان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک ولولہ انگیز انداز میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ بلوچ سیاستدان اکبر بگٹی کھڑے ہیں۔ بھٹو حکومت نے بلوچستان میں نیپ کی صوبائی حکومت پر علیحدگی پسندوں کی سہولت کاری کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے برطرف کردیا، اور بگٹی کو بلوچستان کا نیا گورنر بنا دیا۔

بگٹی بلوچستان کے گورنر بننے کے بعد وزیرِ اعلیٰ پنجاب (بائیں) اور وفاقی وزیرِ قانون (دائیں) کے ساتھ پیمانہ نوش کر رہے ہیں۔

1973 کے آئین کی منظوری کے بعد بھٹو جلسے سے خطاب کر رہے ہیں۔ آئین کے نافذ العمل ہونے پر وہ صدر سے آئینی وزیر اعظم بن گئے تھے۔

بھٹو وزیر محنت اور پی پی پی کے نائب صدر، معراج محمد خان کے ہمراہ۔ معراج محمد خان نے 1973 میں بھٹو سے راہیں جدا کر لیں اور وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ بھٹو نے جلد ہی انہیں پی پی پی سے خارج کر دیا۔ اس کے بعد سے بھٹو نے پی پی ہی سے بائیں بازو کے کٹر نظریہ پرستوں کا اخراج شروع کر دیا۔

وزیرِ قانون اور پی پی پی میں بائیں بازو کے اہم نظریاتی، جے اے رحیم اسلام آباد میں ایک استقبالیہ تقریب کے موقعے پر ایک مہمان سے ملاقات کر رہے ہیں۔ معراج کی طرح ہی رحیم نے بھی بھٹو سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ انہیں گرفتار کیا گیا، مشکل حالات جھیلنے پڑے اور (1975 میں) جماعت سے بے دخل کر دیا گیا۔

1974 میں پنجاب میں ہونے والے احمدی مخالف فسادات کے دوران بھٹو وزیر برائے مذہبی امور کوثر نیازی سے مشاورت کر رہے ہیں۔ مذہبی جماعتیں احمدی برادری کو اسلام کے دائرے سے خارج کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ بھٹو نے ابتدائی طور پر مطالبے کو مسترد کر دیا، مگر پھر مان گئے اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو قومی اسمبلی میں احمدی مخالف بل پیش کرنے کی اجازت دے دی۔ بل میں ایک آئینی ترمیم متعارف کروائی گئی جس میں احمدیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔

بھٹو کراچی میں واقع ایک سرکاری فیکٹری کے اسٹوریج کا معائنہ کر رہے ہیں۔ اس فیکٹری کو تیار شدہ سستی روٹیاں بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ ایسی 5 روٹیوں کے ایک پیکٹ کی قیمت ایک روپیہ تھی۔

بھٹو (1975 میں) کراچی میں اپنے چار میں سے تین بچوں کے ہمراہ خوشگوار موڈ میں نظر آ رہے ہیں۔ بائیں سے: صنم، مرتضیٰ اور بینظیر۔
—فوٹو بشکریہ ڈاکٹر غلام قاضی.

(1975) بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو (دائیں سے تیسری خاتون) کراچی میں ایک ثقافتی تقریب کے دوران پاکستانی فن کاروں اور ماڈلز کے ہمراہ۔

لاہور میں 1974 منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران بھٹو شامی صدر حافظ الاسد اور لیبیا کے سربراہ کرنل قذافی کے ہمراہ۔ اس کانفرنس میں 35 سے زائد مسلم ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ اسی کانفرنس کے دوران بھٹو نے پہلی بار مسلم ممالک کو ایک اقتصادی بلاک میں تبدیل کرنے کے خیال کا اظہار کیا۔

بھٹو دبئی میں پاکستانیوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ ان کے دورِ حکومت میں پاکستانی محنت کشوں اور وائٹ کالر کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے تیل سے مالا مال عرب ممالک کا رخ کرنا شروع کیا۔

1976 میں بھٹو اپنے دوستوں اور جنرل ضیاء (بائیں جانب سے تیسرے نمبر پر) کو لطیفہ سنا رہے ہیں۔ بھٹو نے ذاتی طور پر ضیاء کو ملک کا آرمی چیف منتخب کیا تھا۔

زوال

بھٹو دائیں بازو کی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان نیشنل الائنس یا پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کے ارکان سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ پی این اے نے مارچ 1977 میں بھٹو حکومت کے خلاف بھرپور تحریک کا آغاز کیا۔ اس نے 1977 کے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا اور دوبارہ انتخابات کروانے اور شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
اپنی حکومت کو بچانے کی خاطر بھٹو نے اس گروپ کے زیادہ تر مطالبات مان لیے۔ پی پی پی پہلے ہی اپنے سوشلسٹ مؤقف اور قومیانے کی پالیسی واپس لینے کا فیصلہ کر بیٹھی تھی۔ بھٹو شراب پر (مسلمانوں کے لیے) پابندی عائد کرنے، نائٹ کلبز کی بندش اور کراچی میں ایک بڑے کسینو کی تعمیر کی روک تھام پر راضی ہوئے۔ (اتوار کے بجائے) جمعے کو ہفتہ وار چھٹی کا دن مقرر کر دیا گیا۔

(جولائی 1977 میں) اپنے ہی منتخب کردہ جنرل کے ہاتھوں اپنی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران بھٹو متشککانہ انداز میں ایک صحافی کو سن رہے ہیں۔ ضیاء نے بغاوت کے لیے ’سیاسی بحران‘ کا بہانہ بنایا۔ حزبِ اختلاف کے چند اراکین نے اس بغاوت کا خیر مقدم کیا۔

بھٹو کے بیٹے شاہنواز (بائیں سے تیسرے نمبر پر) اور مرتضیٰ (بائیں سے چوتھے نمبر پر) لندن میں ضیاء حکومت کے خلاف احتجاجی ریلی کی قیادت کر رہے ہیں۔

آخری رسومات: ضیاء آمریت نے بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمے اور ٹرائل کے ذریعے پھانسی دے دی۔ ان کے جسدِ خاکی کو رات کے آخری پہر خفیہ پرواز کے ذریعے ان کے آبائی شہر لاڑکانہ لایا گیا اور خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مٹھی بھر افراد ان کی نماز جنازہ ادا کر رہے ہیں۔ بھٹو کی بیگم اور ان کے بچوں کو ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

بحران

بھٹو کی بیٹی بینظیر 1980 میں عدالت میں پیش ہو رہی ہیں۔ بھٹو کی سزائے موت کے بعد بینظیر کو جیل میں اور پھر بعد میں گھر پر نظر بند رکھا گیا۔

ضیاء مخالف 9 جماعتی اتحاد، تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کی تشکیل کے دوران بینظیر کی ایک تصویر۔ ایم آر ڈی کو 1981 میں تشکیل دیا گیا۔ تصویر میں معراج محمد خان کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جنہوں نے ضیاء بغاوت کے بعد پی پی پی سے اپنے اختلافات ختم کر دیے تھے۔

معروف انقلابی شاعر حبیب جالب لاہور میں نکالی جانے والی ضیاء مخالف ریلی میں موجود ہیں۔

1984: بینظیر اپنے والد کی قبر پر پھول رکھ رہی ہیں۔ 1980 کی دہائی کے اوائل تک پی پی پی نے اپنا رخ ایک بار پھر کٹر بائیں بازو کے پلیٹ فارم کی طرف کر لیا۔ ایسا تب ہوا جب جماعت میں دوسری اور تیسری سطح کی قیادت ابھری جبکہ اس کی اعلیٰ قیادت یا تو جیل میں یا ملک بدر تھی۔ فرانس جلا وطن کیے جانے سے پہلے 1985 تک بینظیر کو جیل میں ڈالنے اور نکالنے کا سلسلہ جاری رہا۔

شاہنواز اور مرتضیٰ بھٹو پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ 1980 میں دونوں نے ضیاء کو ہٹانے کے لیے ایک مارکسسٹ شہری گوریلا تنظیم الذوالفقار تشکیل دی۔ بینظیر نے اس اقدام کی مخالفت کی جس کے باعث مرتضیٰ اور ان کی بہن کے درمیان دراڑ پیدا ہو گئی۔

بینظیر فرانس کی ایک عدالت میں اپنے بھائی کے قتل کیس کی سماعت میں شرکت کے لیے جا رہی ہیں۔ شاہنواز کو 1985 میں زہر دے دیا گیا تھا۔ بینظیر نے یہ شک ظاہر کیا کہ ان کے بھائی کی افغان بیوی نے ضیاء کے سکیورٹی اداروں کی ایماء پر انہیں زہر دیا۔

بینظیر 1986 میں پاکستان لوٹ آئیں۔ یہاں وہ کراچی میں ایک ریلی سے خطاب کر رہی ہیں جسے پولیس نے منتشر کر دیا تھا۔ بینظیر کو ایک بار پھر گھر پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔

1987: بینظیر بھٹو کراچی میں اپنے گھر کے باہر باغیانہ انداز میں کھڑی ہیں جبکہ ان کے حامی ضیاء مخالف نعرے بلند کر رہے ہیں۔

1987 میں بینظیر مایہ ناز سیاستدان نوابزادہ نصر اللہ کے ہمراہ۔
—فوٹو بشکریہ ڈاکٹر غلام قاضی.

اقتدار میں واپسی

1988 میں بینظیر لاہور میں ایک انتخابی ریلی کی قیادت کر رہی ہیں۔ اگست 1988 میں طیارہ حادثے میں ضیاء کی موت واقع ہوئی اور اسی سال انتخابات ہوئے۔ پی پی پی نے سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور نئی حکومت تشکیل دی۔

صدر غلام اسحاق خان کے ہمراہ نو منتخب وزیرِ اعظم پاکستان بینظیر بھٹو (دسمبر 1988)۔ اگست 1990 میں غلام اسحاق نے کرپشن اور کراچی میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال کو سنبھالنے میں نااہلی کے الزامات لگاتے ہوئے ان کی حکومت کو برطرف کر دیا۔

بینظیر بھٹو نواز شریف کی پہلی حکومت کے خلاف احتجاجی ریلی کے دوران آنسو گیس کے پھیلے دھوئیں میں سے گزر رہی ہیں۔ 1993 میں غلام اسحاق خان نے شریف حکومت کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ اس کے بعد غلام اسحاق خان کو (فوج کی جانب سے) استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔

بینظیر بھٹو (اکتوبر 1993 میں) دوسری بار بطور وزیرِ اعظم حلف اٹھا رہی ہیں۔ 1993 کے انتخابات میں پی پی پی نے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ اپنے دوسرے دورِ حکومت کے دوران بینظیر نے صاف طور پر پی پی پی کا رخ اعتدال پسندی کی جانب موڑا اور نجکاری کو فروغ دیا مگر پارٹی کے عوامیت پسندی طرزِ عمل کو برقرار رکھا۔

(1994 میں) بینظیر بھٹو پرجوش بچوں کو آٹو گراف دے رہی ہیں۔

بینظیر اپنے شوہر آصف زرداری کے ہمراہ۔ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اکثر آصف زرداری پر الزام عائد کرتی تھیں کہ انہوں نے نفع بخش سودوں کے لیے اپنی بیوی کی حکومت کو استعمال کیا، مگر عدالت میں کوئی ایک بھی دعویٰ ثابت نہیں ہوا۔

بینظیر بھٹو اپنی والدہ کے ہمراہ مرتضیٰ بھٹو کی آخری رسومات میں شریک ہیں۔ مرتضیٰ بھٹو کو ایک متنازع پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ صدر فاروق لغاری نے بینظیر کی دوسری حکومت برطرف کرنے کے لیے اس قتل کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا۔ یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ فاروق لغاری پی پی پی کے اپنے آدمی تھے اور بنیظیر نے ہی انہیں صدر بنایا تھا۔

جلاوطنی، کامیاب واپسی اور سانحہ

نواز شریف اور بینظیر لندن میں موجود ہیں۔ 1999 میں فوجی بغاوت میں نواز شریف کی دوسری حکومت کو ختم کر دیا گیا تھا۔ جنرل مشرف نے انہیں ملک بدر کر دیا تھا۔ بینظیر پہلے ہی جلا وطن تھیں۔ 2000 کی دہائی کے اوائل میں پرانے دشمنوں نے ایک معاہدے پر دستخط کرنے لیے لندن میں ملاقات کی جس میں انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف نہ اسٹیبلشمنٹ کو استعمال کریں گے اور نہ ہی استعمال ہوں گے (جیسا کہ 1990 کی دہائی میں ہوا تھا)۔
دونوں نے مشرف حکومت کے خلاف مشترکہ محاذ کھڑا کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ 2002 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کو بدترین شکست ہوئی اور پی پی پی دوسرے نمبر پر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ مشرف نے دونوں رہنماؤں کو پاکستان میں انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

2007 میں بینظیر بھٹو پاکستان لوٹ آئیں اور کراچی میں ہزاروں لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ دہشتگردی اور انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث مشرف حکومت کمزور ہو چکی تھی اس لیے نواز شریف بھی وطن واپس لوٹ آئے۔

کراچی میں بینظیر کی وطن واپسی کی ریلی پر خودکش بمباروں نے حملہ کر دیا۔ پی پی پی کے درجنوں حامی مارے گئے مگر بینظیر اس بے رحمانہ حملے میں محفوظ رہیں۔

2007 میں بینظیر اور نواز اسلام آباد میں موجود ہیں۔ دونوں اتحادی بن چکے تھے۔ جب مشرف نے 2008 میں انتخابات کروانے کا اعلان کیا تب چند جماعتوں، بشمول پاکستان مسلم لیگ ن نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، مگر بینظیر نے نواز شریف کو اس بات پر آمادہ کر دیا کہ یہی تو مشرف حکومت ان سے کروانا چاہتی ہے، جس کے بعد نواز نے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔

بینظیر راولپنڈی میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہی ہیں۔ انہوں نے اُس وقت سے اپنی جماعت کو بائیں بازو کی لبرل تنظیم کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ ان کی زندگی کا آخری جلسہ ثابت ہوا۔

اور پھر وہ قتل کر دی گئیں۔ پی پی پی کے حامیوں کی لاشیں اس سڑک پر پڑی ہیں جہاں بینظیر کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا۔ قاتل نے پہلے ان پر گولیاں چلائیں جس کے بعد خودکش بمبار نے دھماکہ کر دیا۔ بینظیر بھٹو 27 دسمبر 2007 کو اپنے درجنوں حامیوں کے ساتھ ماری گئیں۔

بینظیر کے قتل کے بعد پورے پاکستان میں فسادات برپا ہوگئے اور یہ کشیدہ صورتحال تین سے زائد دنوں تک جاری رہی۔

ایک ٹی وی کلپ جس میں بینظیر بھٹو کی موت کی خبر سننے کے بعد نواز شریف آبدیدہ ہیں۔ جس ہسپتال میں بینظیر بھٹو کو لایا گیا تھا، نواز شریف جلد ہی وہاں پہنچ گئے۔

اقتدار میں واپسی

لاہور میں ایک رکشہ پی پی پی کے رنگوں سے سجا ہوا ہے۔ 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اکثریت حاصل کر کے پہلے جبکہ مسلم لیگ ن تھوڑے سے فرق کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ پی پی پی نے نئی حکومت تشکیل دی۔ پی پی پی کے نئے سربراہ آصف علی زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم نامزد کیا۔

آصف زرداری ملک کے صدر بنے۔ پی پی پی کے سامنے انتہاپسندی اور دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات، سیاسی سازشیں، عدالتوں کے ساتھ کشیدہ معاملات اور پارٹی کی اپنی نااہلی جیسے مشکل چیلنجز موجود تھے۔ معاشی بحران پیدا ہوا اور جرائم کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

ایک ’نئی پی پی پی’؟

زرداری اپنے بیٹے بلاول کے ہمراہ۔ 2013 کے انتخابات میں پی پی پی کی بدترین شکست کے بعد باپ اور بیٹے میں دراڑ پیدا ہوئی۔ بلاول پارٹی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانا چاہتے تھے۔ آخر کار زرداری کسی حد تک پیچھے ہٹ گئے۔

بلاول اپنی بہن بختاور کے ہمراہ

بلاول اپنی بہن آصفہ کے ہمراہ۔ بلاول جماعت میں چند تبدیلیاں لائے ہیں۔ انہوں نے ایک ’نئی پی پی پی‘ کا وعدہ کیا ہے جو پی پی پی کی روایتی عوامیت پسندی کی روش اپناتے ہوئے لبرل اور جدید جمہوری اقدار قائم رکھے گی۔


ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔