سیاسی فوائد ، ووٹ بینک بڑھانے اور انتخابات جیتنے کے لیے حریف ملک کے خلاف زہر افشانی اور منہ توڑ جواب دینے کی باتیں اکثر سنائی دیتی ہی رہتی ہیں لیکن زبانی جمع خرچ اور عملی طور پر جنگ کا برپا ہوجانا دو بالکل مختلف حقیقتیں ہیں جن میں سے ایک کا سامنا تو ہم روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں لیکن دوسری حقیقت ایسی ہے جس کا سامنا شائد وہ لوگ کبھی نہ کرنا چاہیں گے جو جنگ کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں۔
جنگ کیا ہوتی ہے؟ کیسی ہوتی ہے؟ یہ سوال اگر ہم اپنے بزرگوں سے پوچھیں جن پر 1947 ، 1965 اور پھر 1971 کے حالات گزرے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ جسے ہم ہر روز محض ایک ’لفظ‘ کے طور پر سنتے اور بولتے ہیں حقیقت میں کتنی بھیانک ہوتی ہے۔
1971 کی ’جنگ‘ کے دوران بنگلہ دیش میں پیش آنے والے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں، بڑے پیمانے پر لوگوں کا قتل عام ہوا، جو خاندان اس سانحے سے گزر چکے ہیں وہ تو شائد جنگ کے نام سے ہی کانپ اٹھتے ہوں گے۔
لیکن وہ لوگ جو اٹھتے بیٹھے بھارت سے جنگ کی باتیں کرتے ہیں وہ شائد یہ سمجھتے ہوں گے کہ ایک گراؤنڈ میں بھارت اور پاکستان کی فوجیں صف آراء ہوں گی، یہ لوگ تماشائیوں کی طرح اسٹیڈیم میں براجمان ہوں گے، ہاتھ میں پاپ کارن لیے گولہ باری کے تبادلے سے محظوظ ہوں گے، لیکن حقیقت میں جنگ ایسے نہیں ہوتی۔
یہاں جنگ سے اجتناب کی بات اس لیے نہیں کی جارہی کہ ہمیں پاک فوج کی صلاحیتوں پر شبہ ہے بلکہ اُس انسانی المیے کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جارہی ہے جو جنگ کے نتیجے میں سرحد کے دونوں طرف پیدا ہوگی۔
بہت سے لوگ 1947، 1965اور 1971 کے واقعات کو جنگ قرار دیتے ہیں تاہم سابق وفاقی وزیر قانون اور ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء کے صدر احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی کو بھی بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگ کا درجہ نہیں دیا گیا بلکہ انہیں مسلح تنازعات قرار دیا گیا جو جنگ سے نچلا درجہ ہے۔
اب اندازہ کرلیں کہ جب مسلح تنازعات سے اتنے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوتا ہے تو بھرپور جنگ کے نقصانات کتنے زیادہ ہوں گے۔