دنیا

وقت آگیا ہے کہ خواتین بھی ڈرائیونگ کریں، سعودی شہزادہ

شہزادہ الولید طلال سعودی شاہی خاندان کے ایک صاف گو فرد ہیں جنہیں خواتین کے حقوق کے حوالے سے کافی سرگرم سمجھا جاتا ہے۔

ایک طرف سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی عائد ہے وہیں ارب پتی سعودی شہزادے الولید طلال کا خیال ہے کہ ملک میں خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کا جلد از جلد خاتمہ ہوجانا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا نہ صرف خواتین کے حقوق کا معاملہ ہے بلکہ معاشی ضرورت بھی۔

شہزادے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے پیغام میں کہا گیا ’اب یہ بحث ختم ہوجانی چاہیے، وقت آگیا ہے کہ خواتین گاڑی ڈرائیو کریں‘۔

شہزادہ الولید طلال، سعودی شاہی خاندان کے ایسے صاف گو فرد ہیں جو کسی سیاسی عہدے پر تو فائض نہیں مگر کنگڈم ہولڈنگ کمپنی کا حصہ ہیں جس کی امریکی بینکنگ کی معروف کمپنی سٹی گروپ اور یورپ کے ڈزنی پارک میں بھی سرمایہ کاری ہے۔

سعودی شہزادے کو ریاست میں خواتین کے حقوق کے لیے کافی سرگرم سمجھا جاتا ہے، سعودی عرب جسے خواتین پر عائد پابندیوں کے لحاظ سے ایک اہم ملک سمجھا جاتا ہے، دنیا کا واحد ملک بھی ہے جہاں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شہزادہ الولید کی اس ٹوئیٹ کے بعد ان کے دفتر سے ایک تفصیلی بیان بھی جاری کیا گیا جس میں ان وجوہات پر روشنی ڈالی گئی جن کے باعث اب ضروری ہے کہ اس پابندی کو ختم کردیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی شہزادی خواتین کے کھیلوں کی سربراہ مقرر

شہزادہ الولید کے جاری بیان میں کہا گیا، ’آج کے دور میں کسی خاتون کو گاڑی چلانے سے روکنا ایسا ہی ہے جیسے اسے تعلیم حاصل کرنے سے یا اپنی علیحدہ شناخت رکھنے سے روکا جائے‘۔

ان کے مطابق، 'یہ روایتی معاشرے کے غیرمنصفانہ عمل ہیں جو کہ مذہب کی جانب سے دی گئی اجازت سے بھی زیادہ محدود ہیں'۔

بیان میں ان ’معاشی اخراجات‘ کا بھی ذکر کیا گیا جو خواتین کو نجی ڈرائیورز رکھنے اور ٹیکسی کے استعمال پر آتے ہیں، چونکہ سعودی عرب میں متبادل کے طور پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آسان سہولت موجود نہیں۔

شہزادہ الولید کا خیال ہے کہ غیر ملکی ڈرائیورز رکھنے سے سعودی معیشت کو اربوں ڈالرز کا ضیاع برداشت کرنا پڑرہا ہے۔

انہوں نے تفصیلی اندازہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک سعودی خاندان کو ہر ماہ ڈرائیور کی تنخواہ کی مد میں 3 ہزار 800 ریال خرچ کرنے پڑتے ہیں، اگر خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دے دی جاتی ہیں تو بچنے والی رقم کو ضرورت کے وقت استعمال کیا جاسکتا ہے۔

شہزادے کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر خواتین کے شوہر انہیں لانے لے جانے کے لیے وقت نکال بھی لیں تو اس صورت میں بھی انہیں اپنا دفتر چھوڑ کر جانا پڑتا ہے جس سے کام کی رفتار متاثر ہوتی ہے۔

ان کے مطابق، خواتین ڈرائیورز کا ہونا موجودہ معاشی صورتحال میں سماجی مطالبہ بن چکا ہے۔

مزید پڑھیں: سات چیزیں جن کی سعودی خواتین کو اجازت نہیں

سعودی شہزادے کا کہنا ہے کہ وہ یہ مطالبہ ان افراد کی جانب سے کررہے ہیں جو محدود وسائل رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ خواتین کو حاصل اختیارات میں اضافہ مرحوم بادشاہ عبداللہ کے دور میں شروع ہوا جنہوں نے 2013 میں شوریٰ کونسل سے اس کی درخواست کی۔

شاہ عبداللہ کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ خواتین میونسپل الیکشن میں ووٹنگ کا حصہ بن سکتی ہیں۔

شہزادہ الولید کہتے ہیں کہ سعودی تاریخ میں یہ اور اس جیسے دیگر فیصلوں پر پہلے پہل چند عناصر کی جانب سے مخالفت کی جاتی ہے مگر کچھ ہی وقت میں انہیں تسلیم کرلیا جاتا ہے۔

اپریل میں بھی ولی عہد نائب شہزادے محمد بن سلمان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ تبدیلی کو زبردستی عائد نہیں کیا جاسکتا اور یہ سعودی معاشرے پر منحصر ہے کہ وہ اسے قبول کرتا ہے یا نہیں۔

دوسری جانب شہزادہ الولید کے خیال میں اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ معاشرے کا ایک حصہ اپنی ترجیحات کو باقی سب پر مسلط کرے۔