حکومت انکوائری کمیشن بل منظور کرانے میں پھر ناکام
اسلام آباد: قومی اسمبلی میں دو تہائی نشستیں رکھنے والی حکومت کو ایک بار پھر اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، جب وہ اپوزیشن کے احتجاجاً بائیکاٹ کے باعث کورم پورا نہ ہونے پر تیسری بار متنازع انکوائری کمیشن بل منظور نہ کرا سکی۔
پاکستان کمیشنز آف انکوائری بل 2016 منظور کرانے میں ناکامی کے باعث دو بار شرمندگی کا سامنا کرنے کے بعد، حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے اجلاس کے آغاز میں بل کی منظوری کے لیے درکار اپنے کم از کم اراکین کی موجودگی کا انتظام کرلیا تھا۔
لیکن اپوزیشن نے بڑی ذہانت سے اپنے کارڈز کھیلے اور اجلاس سے واک آؤٹ کے بجائے اس نے بحث چھیڑ دی، جس کے بعد وزرا کے لیے یہ مشکل ہوگیا کہ وہ اپنے پارٹی اراکین کو ایوان میں روکے رکھیں۔
حکومتی اراکین کے جانے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی شگفتہ جمانی نے جیسے ہی کورم پورا نہ ہونے کے حوالے سے پارٹی اراکین کو مطلع کیا، اپوزیشن اراکین نے اجلاس سے واک آؤٹ کردیا۔
اسپیکر ایاز صادق نے جیسے ہی وزیر قانون زاہد حامد کو حتمی ووٹ کی گنتی کی تحریک پیش کرنے کا کہا، شگفتہ جمانی نے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کی جس کے بعد اسپیکر کو اجلاس منگل (آج) کی صبح تک ملتوی کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت انکوائری کمیشن بل منظور کرانے میں ناکام
جیسے ہی اسپیکر نے اجلاس ملتوی کیا، مایوس نظر آنے والے وزیر قانون اپنے کسی ساتھی سے بات کیے بغیر ہاتھوں میں اپنی کتابیں اٹھائے ایوان سے چلے گئے۔
اپوزیشن نے گزشتہ جمعرات کو بھی اجلاس کے بائیکاٹ کے بعد کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی پر حکومت کا بل منظور کرانے کا منصوبہ ناکام بنایا تھا۔
جمعہ کے روز بِل کو دوبارہ اجلاس کے ایجنڈے میں رکھا، لیکن وزیر قانون نے اس دن بھی کورم پورا نہ ہونے اور اپوزیشن کی جانب سے اس بات کا فائدہ اٹھائے جانے کا اندازہ لگانے کے بعد بل پیش نہیں کیا۔
اجلاس کے دوران اسپیکر نے اراکین کی آواز کے ذریعے بل کی شق وار منظوری کے بعد اپوزیشن اراکین کو اس پر بات کرنے کی اجازت دی تھی۔
اپوزیشن اراکین، بالخصوص پیپلز پارٹی کے اراکین نے حکومت پر وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو پاناما لیکس کیس سے بچانے کی کوشش کے طور پر بِل لانے کا الزام لگایا۔
مزید پڑھیں: پاناما لیکس تحقیقات، اپوزیشن نے سینیٹ میں بل جمع کرادیا
بل کی مخالفت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر نے کہا تھا کہ ’حکومت نے یہ بل اس وقت متعارف کرایا جب سپریم کورٹ، پاناما لیکس کے حوالے سے موجودہ 1956 کے ایکٹ کے تحت انکوائری کمیشن کی تشکیل کی حکومتی درخواست مسترد کرچکی تھی۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’موجودہ اور مجوزہ قوانین میں کوئی خاص فرق نہیں ہے اور حکومت صرف پرانے قانون کو نئے نام سے دوبارہ متعارف کرا رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کی یہ لاحاصل سی کوشش ہے، جبکہ اس بل کو سینیٹ مسترد کردے گی۔‘
جماعت اسلامی کے شیر اکبر خان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو قانون سازی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس سے پاناما پیپرز کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جاری سماعت متاثر ہوسکتی ہے۔‘
پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے اپنی تقریر میں اسے ’ایک خاندان کیلئے مخصوص قانون‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون صرف وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو پاناما لیکس کی تحقیقات سے بچانے سے بنایا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما تحقیقات میں تاخیر کا الزام، اپوزیشن کا احتجاج
انہوں نے کہا کہ ’حکومت نے جیسے قطری شہزادے کا خط ایجاد کیا ویسے ہی یہ بل بھی ایجاد کیا ہے، جبکہ حکومت کو پاناما لیکس کے حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے سینیٹ میں جمع کرائے گئے بل پر غور کرنا چاہیے۔‘
نفیسہ شاہ نے حکومت کو تنبیہہ کی کہ اگر اس نے قومی اسمبلی سے یہ بل منظور کرانے پر زور دیا تو مزید دھرنے اور احتجاج ہوسکتے ہیں۔
اپوزیشن اراکین کی تقریروں کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ نیا قانون 60 سال پرانے قانون سے تبدیل ہوگا، جسے سپریم کورٹ کی جانب سے ’بے اثر‘ قرار دیا گیا تھا۔
انہوں نے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو بچانے کے لیے بل پیش کیے جانے کے تاثر کو زائل کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قانون پاناما لیکس کیس کی انکوائری میں استعمال ہی نہ ہو، کیونکہ یہ معاملہ پہلے ہی آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔‘
دوسری جانب انہوں نے اپوزیشن کے بل کو ’واضح طور پر امتیازی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں صرف وزیر اعظم کو ہدف بنایا گیا ہے، حالانکہ پاناما لیکس میں ان کا نام ہی شامل ہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے مجوزہ قانون کے تحت انکوائری کمیشن کے پاس بین الاقوامی ٹیمیں تشکیل دینے اور دیگر ممالک یا ایجنسیوں سے معلومات، دستاویزات، ثبوت اور ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے تعاون مانگنے کا اختیار ہوگا۔
یہ خبر 29 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔