کھیل کپتان بمقابلہ کپتان (دوسرا حصہ) عمران اورمصباح کی قیادت کے بعد پاکستان کے مزید دوکامیاب کپتانوں عبدالحفیظ کاردار اور مشتاق محمد کی قیادت پر سقراطی بحث حمیر اشتیاق تصویر سہیل حسن گزشتہ نشست میں پاکستان کے کامیاب کپتان کے حوالے سے ہم نے جس سقراطی بحث کا آغاز کیا تھا، آئیے! اس کو بغیر کسی تاخیر کے جاری رکھتے ہیں۔ہم نے گزشتہ مضمون میں مصباح الحق اور عمران خان پر بحث کی تھی اور آج اس حوالے سے مزید تھوڑے سے پرانے دومزید دمکتے ناموں کو شامل کرتے ہیں۔کسی کپتان کے ٹیم پر اثر ورسوخ کو جانچنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں لیکن میچوں کے نتائج سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں۔ اعداد وشمار کی ایک خاص حد ہوتی ہے لیکن ممکنہ حد تک حقیقت کے قریب تر تصویر پیش کرنے قابلیت میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے دس میں سے نو مرتبہ ایسا ہی کیا اور اسی لیے ہم اسی پیمانے کو برقرار رکھتے ہیں۔ہم عبدالحفیظ کاردار سے آغاز کرتے ہیں، جس نے پاکستان کرکٹ کو ابتدا میں ہی عملی طور پر شناخت دی۔ یہ حقیقت کہ پاکستان نے ٹیسٹ کھیلنے والی تمام اقوام کے خلاف اپنی پہلی سیریز میں ایک میچ جیتا جو ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا مظہر تھا۔ ہندوستان کے خلاف لکھنئو میں، انگلینڈ کے خلاف دی اوول میں، ویسٹ انڈیز کے خلاف پورٹ آف اسپین میں اور دورہ کرنے والی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے خلاف ہوم گراؤنڈ میں کاردار کی قائدانہ صلاحیتوں کا امتحان تھا کہ مختلف کھلاڑیوں کے گروہ کی صلاحیتوں کو استعمال کرے اور پاکستان کو ابتدا میں ہی ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے۔کاردار نے 23 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی قیادت کی اور 6 میچوں میں فتح اور 6 میں ناکامی ہوئی اور ہار جیت کی شرح 1.0 رہی (جیسا کہ ہم پہلے بحث کرچکے ہیں کہ کہ مصباح اور عمران خان کی ایک اعشاریہ سات ہے)۔ اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ کن حالات میں یہ کامیابیاں حاصل کی گئیں لیکن اعداد وشمار میں وہ عمران اور مصباح سے پیچھے ہیں۔ 1954 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والا پاکستان کا اسکواڈ بصد احترام ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جن لوگوں نے قیادت سنبھالی ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کی صلاحیتیں کاردار سے میل کھاتیں۔ 1950 کے دوران پاکستان نے 29 ٹیسٹ کھیلے جن میں سے 8 میں فتح ہوئی۔ ان میں سے 6 کاردار کی قیادت میں حاصل ہوئی تھیں جو 1958 میں کنارہ کش ہوئے تھے جبکہ دو دیگر کامیابیاں فضل محمود کی قیادت میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کراچی اور ڈھاکا میں حاصل کی گئیں۔1960 کی دہائی میں پاکستان نے 30 میچ کھیلے اور صرف دو میں کامیابی ملی، دونوں حنیف محمد کی قیادت میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم گراؤنڈ میں حاصل کیں۔ یہ ثبوت ہے کہ پاکستان نے کاردار کے جانے کے بعد فتح کی صلاحیت اچانک کھو دی۔اس دہائی کے اختتام پر اکتوبر 1969 میں انتخاب عالم نے ٹیم کی باگ ڈور سنبھالی اور 17 ٹیسٹ کے دورانیے میں ٹیم میں جیت کی لگن کے اعتبار سے کوئی بہتری لانے کے قابل نہیں ہوئے۔ ان کی قیادت میں 11 میچ برابر کھیلے گئے، 5 میں شکست ہوئی اور ایک کامیابی حاصل ہوئی جو ان دنوں میں بہت نادر تھی۔ اکتوبر 1969 میں جب انتخاب نے قیادت سنبھالی تو اکتوبر 1976 تک پاکستان نے 20 ٹیسٹ کھیلے، ان میں سے تین میں ماجد خان کپتان تھے لیکن وہاں بھی صرف ایک کامیابی ہی پاکستان کے قدم چوم سکی۔یہ بنیادی طور پر کچھ چونکا دینے والے نتائج کی طرف جاتا ہے. پاکستان نے 1960 سے 1975 کے دوران 15 برسوں میں جو 37 ٹیسٹ کھیلے، ان میں پاکستان صرف 3 میچوں میں کامیاب ہوسکا۔ یہ ہر پانچ سال میں ایک فتح، یا درجن ٹیسٹ میچوں میں سے ایک کی اوسط بنتی ہے۔ اگر کوئی اس میں فضل کے دورِ کپتانی کے 1959 والے حصے کو بھی شامل کرے تو اس کا مطلب ہے کہ 16 سالوں میں سات کپتانوں کی رہنمائی میں کھیلے گئے 43 ٹیسٹ میچوں میں پانچ کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ آپ کو یاد دہانی کرواتا چلوں کہ کاردار کے دور میں 6 سال کے دوران 23 میچوں میں 6 کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ مزید پڑھیں: کپتان مصباح بمقابلہ کپتان عمرانکاردار کے بعد تقریباً 15 سال تک جاری رہنے والے بحران کا خاتمہ اس وقت ہوا جب مشتاق محمد نے 1976 میں آ کر چیزوں کو یکسر بدل دیا۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی سب بڑی مثال یہ حقیقت تھی کہ انہوں نے کھلاڑیوں کے اسی دھڑے کے ساتھ مل کر چیزوں کو بدل دیا جو کافی عرصے سے ٹیم کے ساتھ تھے۔ صادق محمد، ظہیر عباس، ماجد خان، وسیم راجہ، آصف اقبال، وسیم باری، سرفراز نواز، عمران خان جیسے کھلاڑی اپنی صلاحیتوں اور اہلیت کی بنیاد پر ٹیم میں موجود تھے لیکن اس وقت کوئی ایسا نہ تھا جو بحیثیت یونٹ ان سے کارکردگی فتح گر کارکردگی لے سکتا۔مشتاق نے ڈھائی سال تک قومی ٹیم کی قیادت کی جس میں انہوں نے آٹھ ٹیسٹ فتوحات حاصل کیں، چار میچز ہارے اور سات ڈرا کیے، ان کی فتوحات کا تناسب 42فیصد رہا(عمران خان کا 29 اور مصباح کا 49فیصد رہا) اور فتح و شکست کا تناسب 2 تھا۔ پاکستان کی کم از کم 15 میچوں میں قیادت کرنے والے تمام کپتانوں میں صرف جاوید میانداد کا تناسب 2.3 کے ساتھ ان سے بہتر تھا( جنہوں نے 34 میچوں میں 14 فتوحات سمیٹیں اور چھ میں شکست ہوئی)۔مشتاق واضح طور پر ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے ایک ایسی ٹیم میں فتح کا جذبہ بیدار کیا جس میں تمام اسٹاراز تھے لیکن انہوں نے اس کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے ہوم گراؤنڈ پر نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں 2-0 سے حاصل کی جس میں عالمی منظر نامے پر جاوید میانداد اور سکندر بخت کی آمد ہوئی۔ اس کے بعد آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے یادگار دوروں کی باری تھی جس میں مدثر نذر اور اقبال قاسم کی آمد ہوئی اور پاکستان نے آسٹریلین سرزمین پر پہلی فتح اپنے نام کی اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ میں محض دوسری کامیابی حاصل کی۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تاریخی تعلقات کی بحالی کے ساتھ ہی ہدنوستان کے چاروں اسپنرز کے عروج میں سنسنی خیز سیریز 2-0 سے جیتی۔ ان کی آخری فتوحات 1979 میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں حاصل ہوئیں جہاں براعظم کی دونوں ٹیموں کے خلاف انہوں نے ایک ایک فتح حاصل کی۔ مشتاق پاکستان کے واحد کپتان ہیں جو آسٹریلیا کے خلاف سیریز نہیں ہاری جو واقعی ایک بڑا کارنامہ ہے۔مشتاق کی قیادت کی سب سے بڑی خوبی اپنے کھلاڑیوں کی اہلیت بھانپنے اور انہیں ایک نئی سوچ دینے کی صلاحیت تھی۔ ان کی زیرقیادت ماجد اور صادق کی اوپننگ شراکت نکھر کر سامنے آئی جو آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ظہیر عباس جنہوں نے اس سے قبل دورہ انگلینڈ پر دو ڈبل سنچریاں اسکور کرنے سوا کچھ نہ کیا تھا، وہ دوسری ٹیموں خصوصاً آسٹریلیا اور ہندوستان کے خلاف بھی رنز کرنے لگے۔ آصف اقبال نے مڈل آرڈر بیٹنگ کی بنیاد بنتے ہوئے 'مرد بحران' کا لقب حاصل کیا۔مشتاق کی مین-مینجمنٹ(کھلاڑی سے بہترین کام لینا) صلاحیت سرفراز نواز کے معاملے سب سے زیادہ کھل کر سامنے آئیں جہاں فاسٹ باؤلر کرکٹ کی گیند سے ہر طرح کا ہنر دکھانے کی صلاحیت رکھتے تھے لیکن ان رویہ ان کے ٹیلنٹ سے بڑھ کر تھا۔ مشتاق نے انہیں ایک ٹیم-مین بنایا اور بحثیت کپتان اپنی آٹھ فتوحات میں سے کم از کم دو مرتبہ ان سے بہترین کارکردگی لی۔ مشتاق محمد کی زیر قیادت اسٹارز سے سجے ڈریسنگ روم کا ایک منظر۔ 1978 میں کراچی کے مقام پر سرفراز نے ایک گیند پر ہندوستانی ٹیم کیلئے میچ ڈرا کرنے کیلئے کوشاں مایہ ناز بلے باز کی توجہ ختم کراتے ہوئے ان کی اننگز کا خاتمہ کر کے راہ ہموار کی اور پاکستان کو میچ جیتنے کا موقع فراہم کیا۔اور پھر باری آتی ہے 1979 میں میلبرن ہونے والے معجزے کی۔ ٹیسٹ میچ کی آخری شام، سات وکٹوں ہاتھ میں ہوتے ہوئے آسٹریلیا کو فتح کیلئے صرف 77 رنز درکار تھے اور وہ فتح کی جانب گامزن تھے۔ اس موقع پر سرفراز نے کمان اپنے ہاتھ میں لی اور 65گیندوں بعد میچ ختم ہو گیا تھا۔ اس میں سرفراز کا حصہ سات وکٹوں کا تھا جو انہوں نے 33 گیندوں کے دوران صرف ایک رن دے کر حاصل کی تھیں اور اننگز میں 86 رنز کے عوض نو وکٹیں حاصل کیں۔ کرکٹ کی تاریخ میں یہ باؤلنگ کی بہترین کارکردگی میں سے ایک مانی جاتی ہے۔سرفراز نواز سے کارنامے سر کرانے میں مشتاق کا کردار کتنا اہم تھا اس کا اندازہ محض اس حقیقت سے ہوجاتا ہے کہ مشتاق کی جگہ روایتی پاکستانی حالات میں قیادت سنبھالنے والے آصف اقبال نے یہ کہہ کر سرفراز کو ٹیم کے ساتھ بھارت لے جانے سے انکار کردیا کہ ان کے ٹیم پر خراب اثرات مرتب ہورہے ہیں اور اس کی قیمت سیریز ہارنے کی صورت میں چکانا پڑی۔مشتاق کو مزید کچھ عرصے تک ٹیم کی قیادت جاری رکھنی چاہیے تھی۔ جب انہوں نے قیادت سنبھالی تو اوسطاً پانچ سال یا ایک درجن ٹیسٹ میچوں کے بعد فتح نصیب ہوتی تھی۔ ان کی زیر قیادت ہر چوتھے ماہ یا تین ٹیسٹ میچ کے بعد فتح ملنے لگی۔ ان کے اعدادوشمار مزید بہتر ہوسکتے تھے اگر وہ 78-1977 کا دورہ نہ چھوڑتے جب وسیم باری نے کیری پیکر سے معاہدہ کرنے والے کی غیر موجودگی میں ٹیم کی قیادت کی، تو یہ اعدادوشمار بہتر ہوتے لیکن یہ یقیناً یہ بات محض اندوزوں پر مبنی ہے۔مشتاق کے زیر سایہ ہی عمران خان ایک ایسا عنصر بنے جس کیلئے انہیں ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔ صف اول کے باؤلنگ آل راؤنڈر کی حیثیت سے ان کے کیریئر کا آغاز عملی طور پر 1976 میں ہوا۔ پھر انہوں نے جب لبھی بھی موقع ملا تو انہوں نے باصلاحیت کو ڈھونڈنے اور انہیں پروان چڑھانے کی روایت جاری رکھی۔تو پاکستان کی تصوراتی بہترین ٹیم کی قیادت کون کرے گا: کاردار، مشتاق، عمران یا مصباح؟ ہماری اپنی اپنی پسند ہوں گی اور سقراطی بحث میں یہ ایک بہترین امر ہے لیکن مشتاق کے اعدادوشمار اور رویہ انہیں اس کا اہل ثابت کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو پروان چڑھانے اور انہیں قابو کرتے ہوئے مشتاق نے کسی کے بھی کام میں مداخلت نہ کی اور غیر محسوس طریقے سے ایک انتہائی غیرفعال، کارکردگی نہ دکھانے والی ٹیم کو کرکٹ کی دنیا کی قوت بنا دیا۔پاکستان کی تصوراتی بہترین ٹیم میں یقیناً انا کے مسائل سر چڑھ کر بولیں گے اور مشتاق جیسے شخص کا انتخاب انتہائی زبردست ہو گا جو ان سے بہترین کام لے سکے۔ وہ کاردار جیسے شاہانہ تھے، نہ عمران جیسے تحکم پسند اور نا ہی مصباح الحق جیسے اطاعت۔ اس بارے میں سوچیے گا۔