ہم بھارت سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں، عبدالباسط
ہندوستان میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ پاکستان آئندہ ہفتے امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر بھارت سے مذاکرات کیلئے تیار ہے۔
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی ہائی کمشنر نے بھارتی چینل آج ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کا اس حوالے سے شیڈیول حتمی نہیں ہے اور اگر میزبان کی جانب سے مذاکرات کی دعوت دی گئی تو پاکستان اسے منظور کرلے گا۔
دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان مذاکرات کی بحالی پر زور دیتے ہوئے عبدالباسط کا کہنا تھا کہ 'ہم مذاکرات کو کچھ ماہ یا کچھ سالوں کیلئے بھی ملتوی کرسکتے ہیں، لیکن بلا آخر پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود مسائل کا حل صرف مذاکرات میں ہی ہے اور اس لیے دونوں ممالک کو مل بیٹھ کر بات چیت کرنا ہوگی جس سے ان کے مسائل حل ہوسکیں'۔
مزید پڑھیں: رکن ممالک کا شرکت سے انکار، سارک کانفرنس ملتوی
ہندوستان اور بھارت کے درمیان سرحد پر جاری تنازع کے حوالے سے پاکستانی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ 'لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافہ نہ تو پاکستان کے حق میں ہے اور نہ ہی بھارت کو اس سے کوئی فائدہ حاصل ہوگا، پاکستانی فوج کا بڑا حصہ ضرب عضب آپریشن کی وجہ سے مغربی سرحدوں پر تعینات ہے تاہم یہ کہنا کہ سرحد پر کشیدگی میں اضافہ پاکستان کی جانب سے کیا جارہا ہے، یہ غلط ہے'۔
پاکستانی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ 'ہم چاہتے ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر جاری کشیدگی کو ختم ہونا چاہیے اور 2003 کی جنگ بندی کو باقاعدہ طور پر معاہدے کی شکل دے دی جائے'۔
پاکستان کے نئے آرمی چیف اور جہموری نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے عبدالباسط کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کی جمہوریت اس قدر سمجھدار ہوگئی ہے جس کے بعد فوجی بغاوت کا امکان ہی پیدا نہیں ہوتا، ایک توازن قائم ہوچکا ہے، عوام کی آواز اور جمہوریت اب مضبوط ہوچکی ہے جس کے بعد مستقبل میں فوجی بغاوت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا'۔
گذشتہ ماہ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے تصدیق کی تھی کہ پاکستان ہندوستان میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: مظفرآباد: بھارتی فوج کی بس پر فائرنگ، 9 افراد جاں بحق
خیال رہے کہ رواں سال ستمبر میں ہندوستان نے پاکستان میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا تھا جس کے بعد پاکستان نے مذکورہ کانفرنس کو معطل کردیا تھا۔
رواں ماہ 19 نومبر کو بھی ایل او سی کے مختلف سیکٹرز پر ہندوستانی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 4 پاکستانی شہری جاں بحق جبکہ کئی زخمی ہوگئے تھے، اسی روز 6 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کی بھی خبریں سامنے آئی تھیں، تاہم بھارت نے اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔
اس سے قبل 18 نومبر کو بھارتی بحریہ کی جانب سے بھی پاکستانی سمندری حدود کی خلاف ورزی کی کوشش کی گئی، تاہم پاک بحریہ نے پاکستانی سمندری علاقے میں بھارتی آبدوز کی موجودگی کا سراغ لگا کر انھیں اپنی سمندری حدود میں داخل ہونے سے روک دیا۔
پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں 18 ستمبر کو ہونے والے اڑی حملے کے بعد سے کشیدگی پائی جاتی ہے، جب کشمیر میں ہندوستانی فوجی مرکز پر حملے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کا الزام نئی دہلی کی جانب سے پاکستان پر عائد کیا گیا تھا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: لائن آف کنٹرول پر 3 ہندوستانی فوجی ہلاک
بعد ازاں 29 ستمبر کو ہندوستان کے لائن آف کنٹرول کے اطراف سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے نے پاک-بھارت کشیدگی میں جلتی پر تیل کا کام کیا، جسے پاک فوج نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان نے اُس رات لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اور بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 2 پاکستانی فوجی جاں بحق ہوئے، جبکہ پاکستانی فورسز کی جانب سے بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا۔
واضح رہے کہ 29 ستمبر 2016 کو ہندوستان کی جانب سے 19ویں جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) سربراہان کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان نے نومبر میں ہونے والی کانفرنس ملتوی کردی تھی۔