لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات — فوٹو : آئی ایس پی آر
اس کے علاوہ وہ بہاولپور کے کور کمانڈر بھی رہ چکے ہیں لہٰذا وہ چیئرمین جوانٹ چیفس آف اسٹاف کے عہدے کیلئے آئیڈیل انتخاب ہیں، جس کے پاس جوہری فورسز اور اثاثوں کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔
چیف آف جنرل اسٹاف اور ڈی جی ایس پی ڈی کے عہدے پر رہنے کی وجہ سے انہیں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ قریب سے کام کرنے کا موقع ملا ہے۔
جب وہ میجر جنرل کے عہدے پر تھے تو جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) سیالکوٹ کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے اور بعد میں اسٹاف ڈیوٹیز (ای ڈی) ڈائریکٹوریٹ کی سربراہی کی جس کے اہلکاروں کے بارے میں آرمی میں عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ 'یہ کاغذ کے شیر ہیں'۔
ڈائریکٹوریٹ میں تعیناتی اور آرمی چیف کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کے عہدے پر پوسٹنگ کی وجہ سے وہ جنرل کیانی کے قریب آگئے تھے اور انہیں جنرل کیانی کا شاگرد سمجھا جاتا تھا، تاہم انہوں نے کبھی جنگ زدہ علاقے میں خدمات انجام نہیں دیں۔
لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات کے ساتھ کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ کام کرنے کے جنونی ہیں جبکہ ان کا حافظہ بھی بہت تیز ہے۔
جنرل زبیر سیکنڈ جنریشن آفیسر ہیں اور ان کے والد بھی پاک فوج سے میجر جنرل کے عہدے پر ریٹائرہوئے تھے جبکہ ان کے دو بھائی بھی جنرل ہیں، ان میں سے ایک پاکستان آرڈیننس فیکٹریز واہ کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل عمر حیات اور دوسرے انٹر سروس انٹیلی جنس کے ڈی جی اینالسس میجر جنرل احمد محمود حیات ہیں۔
اعلیٰ افسران کے تقرر کا طریقہ چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی نامزدگیوں کا باضابطہ آغاز جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کی جانب سے، وزارت دفاع کے ذریعے وزیر اعظم کو سینئر ترین آرمی افسران کی فہرست بھیجے جانے سے ہوتا ہے، لیکن اس میں کوئی سفارشات شامل نہیں ہوتیں۔
اس کے بعد وزیر اعظم نے کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل رخصت ہونے والے آرمی چیف سے اس حوالے سے غیر رسمی مشاورت کی۔
بعد ازاں صدر وزیر اعظم کی تجویز پر آرمی چیف کا تقرر کرتے ہیں، اسی لیے صدر کو فورسز کا کمانڈر انچیف بھی کہا جاتا ہے۔
جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ
یاد رہے کہ پاک فوج کے سربراہ کی حیثیت سے 3 سال کی توسیع قبول کرنے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے 2013 میں جب اعلان کیا کہ وہ دوسری بار مدت ملازمت میں توسیع نہیں لیں گے، تو اس وقت جنرل راحیل شریف آرمی چیف کی دوڑ میں پسندیدہ تصور نہیں کیے جارہے تھے۔
جنرل راحیل شریف عظیم حکمت عملی ترتیب دینے والے یا مفکر بھلے نہ ہوں مگر انہوں نے ایسے سخت فیصلے ضرور کیے جن سے دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دیا گیا۔
جنرل راحیل شریف نے ایک انتہائی پروفیشنل فوجی کے طور پر اپنے عہدے سے پورے وقار سے سبکدوشی کے ساتھ اپنے ادارے کا وقار بلند کیا۔
ایسا کہا جاسکتا ہے کہ ہماری تاریخ میں ایسا کوئی دوسرا آرمی چیف نہیں گزرا ہوگا جس نے اس قدر عزت اور مقبولیت حاصل کی ہوگی۔
جنرل راحیل شریف کو ان کے جس فیصلے نے سب سے زیادہ مقبول کیا وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف جون 2014 میں شروع کیا جانے والا آپریشن ’ضرب عضب‘ ہے۔
یقیناً شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے کامیاب اختتام کا سہرا جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے، جس علاقے کے بارے میں بین الاقوامی دہشت گردی کا بنیادی مرکز اور ہر قسم کے عسکری گروہوں، جن میں القاعدہ سے لے کر پاکستانی اور افغان طالبان شامل ہیں، کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا، اس علاقے میں جنرل راحیل شریف کے کمان حاصل کیے جانے کے بعد جلد ہی فوج حرکت میں آئی۔
انہوں ان لوگوں کے تمام خدشات غلط ثابت کیے جو ان خطرناک علاقوں میں جانے سے خبردار کر رہے تھے اور وہاں موجود باغیوں سے مصالحتی راہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔
مختلف ادوار میں رہنے والے آرمی چیفس مزید کے لیے کلک کریں