ٹریفک جام کی کہانی
منگل 22 نومبر 2016 کے دن کو کس طرح یاد کیا جائے؟ بہت سے لوگوں کے لیے یہ کراچی میں بدترین ٹریفک جام کا دن، یا دفاعی نمائش آئیڈیاز 2016 کا پہلا دن تھا مگر میرے لیے شاید ایک ڈراؤنا دن ثابت ہوا۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائم کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی کوئی بریکنگ نیوز ہے، شاید شہریوں کو اب یہ ایک مسئلہ بھی نہیں لگتا، بس اب بے چارے ایک دوسرے کو احتیاط کی تلقین اور لوٹنے والے شخص کی پستول کی زد سے بچنے کی ہدایات ہی دے رہے ہوتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب نے بطور ایک معاشرہ اسٹریٹ کرائم کو اپنی زندگی کا ایک دہشت زدہ پہلو بنا دیا ہو۔
22 نومبر 2016 کو میں معمولاً اپنے دفتر سے گھر جانے کے لیے اپنے شوہر کے ہمراہ روانہ ہوئی، ہمیں اس بات کا علم تھا آج سڑکوں کے معمولاً روٹس تبدیل کر دیے ہیں سو میں ذہنی طور پر تیار تھی کہ مجھے واپسی پر بھاری ٹریفک کا سامنا ہوگا۔
اس روز شہر میں سیکیورٹی کے بھی سخت انتظامات تھے مگر اس سیکیورٹی کی وجہ عوام نہیں تھی کیونکہ وہ کون سا وی آئی پی کا درجہ رکھتے ہیں جن کے لٹنے، مرنے اور بھوکا ہونے سے بین الاقوامی رنگ منچ پر بدنامی کا داغ لگے لگا۔
جب دفتر سے نکلے تو سوچا کہ ایکسپو میں نمائش کے باعث صدر، ایم اے جناح روڈ، شارع فیصل سمیت سارے راستے مصروف ہوں گے، اس لیے ماڑی پور سے لیاری ایکسپریس وے کا راستہ اختیار کر کے اپنے گھر پہنچ جائیں گے، تاہم ہوا وہی جس کے لیے ہم ذہنی طور تیار تھے، تمام منصوبہ بندی ناکام ہوئی اور ہم بُری طرح ٹریفک میں پھنس گئے، اگرچہ تو ہمارے دفتر سے ماڑی پور کا راستہ اتنا طویل نہیں لیکن اس رات ہمیں وہاں پہنچنے میں تقریباً ڈھائی گھنٹے لگے۔
ماڑی پور پہنچنے سے قبل میرے شوہر نے مجھ سے کہا کہ میں ایک مرتبہ گوگل میپ (نقشے) میں راستہ دیکھ لوں کہ کیا ہم صحیح راستے پر گامزن ہیں یا نہیں، کیونکہ ہماری گاڑی کے دونوں اطراف ٹرالرز موجود تھے، جس سے راستہ دیکھنے میں دشواری پیش آ رہی تھی، میں نے اپنا موبائل فون نکالا اور گوگل میپ پر دیکھا کہ ہم صحیح راستے کی جانب جارہے ہیں۔
اس وقت گاڑی کی میری ساتھ والی کھڑکی کا شیشہ ہوا کے گزر کے لیے تھوڑا سا ہی کھلا تھا، اور گاڑی ٹریفک کے باعث بالکل آگے نہیں بڑھ رہی تھی، بس اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلح شخص ہمارے گاڑی کی جانب بڑھا اور یکدم میرے ہاتھ سے موبائل فون چھینا اور دوڑ لگا دی، اس نے اپنے ایک ہاتھ میں پستول تھاما ہوا تھا، تاہم مزاحمت نہ کرنے یا ایسا کہیں کہ مجھے مزاحمت کا موقع نہ ملنے کی وجہ سے اسے اس کے استعمال کی ضرورت نہیں ہی پڑی۔
میرے شوہر نے اس کے پیچھا کرنے کی کوشش کی مگر ایسی صورتحال کے پیش نظر میں شدید خوف زدہ ہو گئی تو میں نے اپنے شوہر کو اس شخص کا تعاقب کرنے سے روک دیا، اور پھر وہی فقرے ذہن میں شور مچانے لگے اور جھوٹے دلاسے دینے لگے کہ جان بچی تو لاکھوں پائے، جان کا صدقہ نکل گیا وغیرہ غیرہ۔
یہ واقع جہاں ہوا وہاں سے تھوڑی دور رینجرز چوکی بھی واقع تھی مگر ایک ایسی جگہ جو کہ اسٹریٹ کرائمز کی وجہ سے مشہور ہے اور سیکیورٹی اداروں اور انتظامیہ نے اس بات علم ہوتے ہوئے بھی کہ ٹریفک کا دباؤ اسی جانب ہوگا اور ٹریفک جام کی وجہ سے لوٹ مار کی وارداتیں ہو سکتی ہیں، کوئی سیکیورٹی اہلکار نظر نہ آیا۔
ایک مصروف سڑک پر اس طرح بے خوف و خطر نوجوان بڑی آسانی سے اسلحے کے ساتھ شہر میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں مگر پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے آنکھیں بند رکھتے ہیں۔
اس واقعے کے بعد کسی بھی عام انسان کی طرح گھنٹوں تک میں ذہنی طور پر ایک عجیب خوف میں مبتلا رہی، جس کے بعد گھر پہنچ کر ہم نے موبائل فون نمبرز بلاک کروائے اور سی پی ایل سی کو فون چھینے جانے کی شکایت بھی کی، جس کے ملنے کی بہت کم ہی امیدیں ہیں، کیوں کہ نمائندے کا کہنا تھا کہ 'دیکھیں گے'، 'اگر ملا تو'، 'اگر بیچا تو ملے گا'، 'پتا نہیں'۔
مگر عوام کے جاں و مال کی حفاظ کی ذمہ داری ریاست کا بنیادی و آئینی فرض ہے۔ مالی نقصان یقیناً پورا ہو جاتا ہے مگر ایسے واقعات سے عام شہری جس خوف میں مبتلا ہوتے ہیں وہ شاید مہینوں انسان کے حواس پر طاری رہتا ہے اور انسان کسی کے سایے سے بھی خوف محسوس کرتا ہے۔
پاکستان میں اسٹریٹ کرائم لاہور کے مال روڈ سے لے کر کراچی کے ماڑی پور روڈ تک پھیلا نظر آتا ہے۔ اس چھینا جھپٹی کی ایک بڑی وجہ سیکیورٹی اداروں کی پلاننگ سے عاری حکمت عملیاں ہیں۔ دفاعی نمائش سالوں سے ہو رہی ہے اور اسے ہوتے رہنا چاہیے مگر عام لوگوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا اور ٹریفک کو مینج کرنا حکومت اور شہری انتظامیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
ہمارے ادارے اور حکومت آخر اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پولیس موبائل کے ایک گشت یا ہفتے میں ایک دو دفعہ کسی سڑک پر ناکہ لگانے سے اسٹریٹ کرائم ختم نہیں ہوں گے بلکہ اس کے لیے پولیسنگ کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں بنکاک سمیت کئی ایسے شہروں کی مثالیں موجود ہیں جہاں جرائم کی تعداد کراچی سے کہیں زیادہ تھی مگر جب حکومت سنجیدہ ہوئی اور پولیس کا نظام بہتر ہوا تو وہاں جرائم تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔
امید ہے کہ یہ تحریر انتظامیہ تک پہنچے اور عوام جس مالی نقصان اور ذہنی کشمش سے گزر رہی ہے انہیں اس کا احساس پیدا ہو۔
میمونہ نقوی ڈان کی سابق اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔