کراچی کے مرجھائے ہوئے پھول پتے
اکیسویں صدی میں سائنسی ترقی کے باعث کمپیوٹر اور دیگر برقی آلات کی بھر مار سے شہری زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ زیادہ تر شہری اپنا وقت گھر کے اندر گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے شہریوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور فطرت سے تعلق ٹوٹتا جا رہا ہے۔
شہر میں پروان چڑھتے اس رجحان کو شکست دینے کے لیے شہری زندگی کو بہتر بنانے اور شہریوں کو صاف ستھرا، آلودگی سے پاک ماحول فراہم کرنے کی ذمہ داری شہری انتظامیہ اور حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کا بہترین ذریعہ پبلک پارکس اور گرین اسپیس ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پبلک اسپیس پر حکومتی سرمایہ کاری، شہریوں کو پبلک پارکس کا رخ کرنے پر مائل کرے گی، جو ان کی صحت بہتر بنانے کی جانب ایک مثبت قدم ثابت ہوگا۔
پبلک پارک انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت و نشوونما کے لیے انتہائی مؤثر تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سبزہ اور ہرے بھرے درخت انسانی نفسیات پر کافی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرے بھرے اور کھلے مقامات پر جاکر انسان خود کو تر و تازہ محسوس کرتا ہے۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسانی صحت کے لیے سازگار ماحول کی تشکیل میں پبلک پارک انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں اور کسی بھی وجہ سے ان پارکس کی ابتر و نا قابل استعمال، آلودہ حالت میں موجودگی سے شہریوں کی جسمانی و ذہنی صحت پر انتہائی منفی اور مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
مشاہدے و تحقیق سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ پبلک پارک تک کسی بھی صورت میں رسائی نہ ہونے کے باعث شہریوں میں موٹاپے، ہائی بلڈ پریشر، امراض قلب، شوگر و دیگر جسمانی بیماریوں کے ساتھ ذہنی تناؤ، ڈپریشن و دیگر نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونے کا تناسب خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔
ایسا شہر جہاں عوام کو پبلک پارک تک رسائی فراہم ہے وہاں لوگوں کی ذہنی و جسمانی صحت قدرے بہتر رہتی ہے۔ جس کی مثال ہم مغربی ملکوں سے لگا سکتے ہیں، امریکا کا شہر نیویارک ویسے تو اپنی جگمگاتی روشنیوں اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ عمارات اور جدید طرزِ زندگی کی وجہ سے دنیا میں مقبول ہے مگر اس شہر کے بیچوں بیچ 8 سو 43 ایکڑ پر محیط ایک وسیع و عریض سینٹرل پارک بھی ہے، جو شہریوں کو تھوڑی دیر کے لیے شہر کی مصروف زندگی سے بالکل مختلف تازہ ہوا کے ساتھ خوشگوار ماحول فراہم کرتا ہے۔
اگر انفرادی سطح پر بات کریں تو ایسے افراد جو دن میں اپنا کچھ حصہ پبلک پارک و تازہ کھلی فضا میں اپنا وقت گزراتے ہیں ان میں جسمانی و نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونے کا تناسب انتہائی کم پایا جاتا ہے۔
لیکن اگر کراچی کے پبلک پارکس کی صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو بیشتر پارک کچرا کنڈی کامنظر پیش کر رہے ہیں۔ شہری ان میں جانے تو دور کی بات ان کے پاس سے گزرنا بھی پسند نہیں کرتے ۔ ایسے تمام پارک نشے کے عادی افراد کی آمائش گاہ بنئے ہوئی ہے یا پھر یہ پارکس نو عمر لڑکوں کے لیے سگریٹ نوشی کرنے کے محفوظ مقام کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
کراچی جیسے وسیع و عریض شہر اور کثیر آبادی کے اعتبار سے ہر تھوڑے فاصلے اور ہر مرکزی علاقے میں پبلک پارک ہونا انتہائی ضروری ہے مگر حکومتی عدم توجہی کے سبب ہمارے محلے پبلک پارک جیسی ضروری سہولت سے محروم ہیں۔ جس کی وجہ سے شہری اپنے گھروں تک محدود رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
شہر میں واقع جو بڑے پارکس موجود بھی ہیں تو وہاں والدین، اپنے بچوں کو ان پارکس میں کھیلنے کی اجازت دینے سے کتراتے ہیں۔ اس رحجان کے باعث ہمارا شہر (و ملک) کی کھیلوں کے میدانوں میں کارگردگی بری طرح مثاتر ہو رہی ہے۔ گھر میں وقت گزارنے کی وجہ سے بچوں کی جسمانی افزائش بھی غیر اطمینان بخش ہے اور زیادہ تر بچوں کی جسمانی صحت کم عمر میں ہی متاثر ہوتی نظر آتی ہے اور بچپن میں ہی بچے سستی اور کاہلی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
خاص طور پر وہ طبقہ جو اشرافیہ کے لیے بنائے گئے بڑے کلبس میں شرکت نہیں کر پاتا، ان کے بچے کھیل کود اور صحت مند سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پاتے، وہ گلی محلوں میں ہی اپنے کھیل کود کے شوق پورے کرتے ہیں جہاں اکثر محلے دار انہیں کھیلنے کی بھی اجازت نہیں دیتے۔
شہر کراچی کی آبادی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن آبادی کے تناسب سے پبلک پارک کے لیے زمین مختص نہیں کی جارہی۔ بلکہ موجودہ مختص زمیں بھی دیگر امور کے لیے استعمال کی جار ہی ہے، جس کے باعث حالیہ چند سالوں میں شہر میں پبلک پارکس میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔
جبکہ شہر میں بچے کچے پارکس کی صورت حال انتہائی ابتر ہے جس کی بڑی وجہ پارکس اور سبزے کا مناسب خیال نہ رکھنا ہے۔
پبلک پارکس کی بحالی ہنگامی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی بحالی شہریوں کی جسمانی و ذہنی صحت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ شہر کی فضا سے بارود کی بو تو کم ہوئی اب یہاں مرجھائے پھول پتوں کو بھی کھلنے کی ضرورت ہے۔
شجاع حیدر جامعہ کراچی میں میڈیا آرٹ میں بیچلرز کے طالب علم ہے۔ جبکہ فلم، ادب، عالمی امور، فٹ بال اور طلبہ کے مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔