پاکستان

پاکستان ٹیلی وژن کے یادگار ڈرامے

جب کیبل یا ڈش کا وجود نہیں تھا اور گھروں میں پی ٹی وی کے ڈراموں کا سحر طاری رہتا تھا۔
|

جب بات آتی ہے تفریح کی تو موجودہ دور میں ٹیلی وژن عام افراد کی انٹرٹینمنٹ کا سب سے بڑا ذریعہ مانا جاسکتا ہے اور اس شعبے میں سب سے زیادہ اہمیت ڈراموں کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی ہے جس میں معاشرے کے مختلف رنگوں کی کہانیاں لوگوں کو اپنے سامنے باندھے رکھتی ہیں۔

اس معاملے میں پاکستان اپنے پڑوسی ممالک جیسے ہندوستان سے بہت آگے ہے یہاں تک کہ اس وقت بھی ایک انڈین چینل پر نئی نسل کے پاکستانی ڈراموں جیسے 'زندگی گلزار ہے'، 'مات' اور دیگر نے دھوم مچا رکھی ہے اور پاکستانی اداکار وہاں سپر اسٹار بن کر ابھرے ہیں۔

مگر کیا آپ کو وہ عہد یاد ہے جب کیبل یا ڈش کا وجود نہیں تھا اور گھروں میں پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے ڈراموں کا سحر طاری رہتا تھا جن کا معیار آج کے ڈرامے بھی چھونے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

یہاں ہم نے اُس دور کے چند ڈراموں کو مختلف کیٹیگریز جیسے مزاح، سیریلز اور لانگ پلے وغیرہ کے لحاظ سے تقسیم کرکے منتخب کیا ہے جو ہوسکتا ہے آپ کو بھی پسند ہوں تاہم اگر آپ کے خیال میں اس میں کسی اور نام کا اضافہ بھی ہونا چاہیے تو نیچے کمنٹس میں ہمیں آگاہ کرسکتے ہیں۔

ڈراما سیریلز

یہ بھی جانیں : ہر دور کے سب سے مقبول 20 پاکستانی ڈرامے


خدا کی بستی


شوکت صدیقی کے تحریر کردہ اس ناول کو پہلی بار 1969 اور پھر 1974 میں دوسری بار ڈرامے کی شکل دی گئی۔ 'خدا کی بستی' میں ایک مفلوک الحال مگر باعزت خاندان کے شب و روز کو موضوع بنایا گیا ہے جو قیامِ پاکستان کے بعد ایک بستی میں آباد ہو جاتا ہے۔ یہاں اس کا ہر طرح کے معاشرتی و معاشی مسائل اور با اختیار لوگوں کی ریشہ دوانیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس ڈرامے میں زندگی کی تلخ حقیقتیں، کمزوروں کی بے بسی، طاقتوروں کے استحصالی رویے، مذہب کے ٹھیکیداروں کی من مانیاں، غرض ہمارے معاشرے کا ہر رخ موجود تھا۔ اسی لیے یہ ڈراما اپنے دور کا مقبول ترین ڈراما تھا۔ س کی ہر قسط کے موقع پر گلیاں اور بازار سنسان ہو جاتے تھے، یہاں تک کہ اکثر شادیوں کی تاریخ طے کرنے کے موقع پر بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ اس روز 'خدا کی بستی' نے نشر نہ ہونا ہو۔


وارث


جن لوگوں کو ڈراما 'وارث' دیکھنے کا موقع ملا ہے انہیں یاد ہوگا کہ کس طرح اس کے نشر ہونے کے وقت بازاروں میں صحرا کا منظر پیش ہونے لگتا تھا، جاگیرداری نظام کے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کو بیان کرنے والا یہ ڈراما معروف شاعر امجد اسلام امجد کے قلم سے تحریر کیے گئے مضبوط سکرپٹ اور ہدایتکار نصرت ٹھاکر اور یاور حیات کی گرفت کی بدولت ماسٹر پیس قرار دیا جا سکتا ہے۔ وارث جاگیردارانہ نظام کے نشیب و فراز، دو جاگیرداروں کے مابین دشمنی، بااثر خاندان کے اندرونی جھگڑوں اور اس نظام سے جڑی سیاست کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے جس میں ذاتی مفادات کو ہر رشتے اور ہر شے پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اس ڈرامے کے پرستار چوہدری حشمت کو کیسے بھول سکتے ہیں جس کا جاندار کردار محبوب عالم مرحوم نے ادا کیا جبکہ فردوس جمال، اورنگزیب لغاری، جمیل فخری اور دیگر بھی اسے اپنی زندگی کا لازوال ڈراما قرار دیتے ہیں۔


دھواں


پی ٹی وی کی تاریخ میں اگر کوئی ڈراما پہلے ایکشن پلے کا اعزاز حاصل کر سکتا ہے تو وہ 'دھواں' ہی ہے۔ عاشر عظیم نے اسے تحریر کیا اور انہوں نے ہی ایک پولیس افسر اور ایک خفیہ ایجنٹ کا مرکزی کردار بھی کیا، جبکہ نبیل، نازلی نصر اور نیئر اعجاز کے کرداروں کو بھی آج تک یاد کیا جاتا ہے۔سجاد احمد کی ہدایات میں بننے والے اس ڈرامے میں پاکستانی معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں اور پولیس کی کمزوریوں کی بہت خوبصورتی سے عکاسی کی گئی تھی جن سے نمٹنے کا بیڑہ چند نوجوان اٹھاتے ہیں، جن کی دوستی بھی دیکھنے والوں کے ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ اس ڈرامے کا المیہ اختتام بھی انتہائی پُراثر ثابت ہوا اور آج بھی اسے کلاسیک سمجھا جاتا ہے۔


ہوائیں


ہوائیں پی ٹی وی کا وہ ڈراما ہے جو آج بھی اُن لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے جنھوں نے اسے دیکھا تھا۔ حیدر امام رضوی کی ہدایات اور فرزانہ ندیم سید کی تحریر سے سجے اس ڈرامے میں محمود علی، فرید نواز بلوچ، غزالہ کیفی، قیصر خان نظامانی، کومل رضوی، قاضی واجد، ہما نواب اور عبداللہ کادوانی جیسے اداکاروں نے کام کیا مگر جو شخص لوگوں کے ذہنوں پر چھایا وہ طلعت حسین تھے۔ یہ ڈراما ایک خاندان کی مشکلات کے گرد گھومتا ہے جس کے سربراہ کو قتل کے جھوٹے الزام میں پھانسی کی سزا ہوجاتی ہے، اس الزام کو ختم کرنے کے لیے اس کی کوششیں اور جدوجہد دیکھنے والوں کے دلوں کو نرم کردیتی ہیں، پھانسی کے منظر نے اس دور میں پورے ملک کو صدمے کا شکار کردیا تھا۔


دھوپ کنارے


یہ ڈراما حسینہ معین کی تخلیقی صلاحیتوں کا شاہکار تھا جب کہ ہدایات راحت کاظمی کی بیگم اور معروف اداکار ساحرہ کاظمی نے دی تھیں۔ مرینہ خان اور راحت کاظمی کو اس ڈرامے کے بعد بہترین آن سکرین جوڑا تسلیم کیا گیا۔ ڈاکٹروں کی زندگی پر بننے والا یہ ڈراما سنجیدہ راحت کاظمی اور شوخ و چنچل مرینہ خان کے گرد ہی گھومتا ہے اور ان کی کیمسٹری نے اس ڈرامے کو پی ٹی وی کی تاریخ کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک بنا دیا۔


شمع


یہ ڈراما اگرچہ بلیک اینڈ وائٹ تھا مگر اس کے باوجود یہ نشر ہوتے ہی لوگوں کے دلوں کو بھا گیا۔ اے آر خاتون کے ناول کو لے کر فاطمہ ثریا بجیا نے اسے ڈرامائی شکل دی اور ٹی وی پر اپنے طویل سفر کا آغاز کیا۔ لیجنڈ ہدایتکار قاسم جلالی نے اس ڈرامے کو حقیقی زندگی کے اتنے قریب کر دیا کہ اسے دیکھنے والوں کو ایسا ہی محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کے گھر کی کہانی ٹی وی پر بیان کی جا رہی ہے۔ جاوید شیخ، قربان جیلانی، عشرت حسین اور دیگر کی جاندار اور زبردست اداکاری نے بھی اسے مقبول ترین بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔


الفا براوو چارلی


اپنے دور کے اس مقبول ترین ڈرامے کے ہدایت کار شعیب منصور تھے۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے تعاون سے بنائی گئے اس ڈراما سیریل میں تین دوستوں کی کہانی بیان کی گئی جو زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہیں۔ کاشف کی فوج کو خیرباد کہہ دینے کی خواہش اور فراز کی اپنے دوست کو بیدار کرنے کے لیے کی جانے والی شرارتیں آپ کو اُس وقت تک اسکرین پر نظریں جمائے رکھنے پر مجبور کردیں گی جب تک کہ سنجیدہ معاملات شروع نہیں ہو جاتے۔ اسی طرح شرارتی کاشف کا سیاچن گلیشیئر پہنچ کر بتدریج سنجیدہ ہونا اور اپنے ملک کے لیے جان کو داﺅ پر لگا دینے کی ادا تو سب پر جادو سا کر دیتی ہے۔ پاک فوج کے لیے دل میں محبت جگانے والی اس سیریل نے اپنے دور میں ہر طرح کے ریکارڈز توڑ دیئے تھے اور اب بھی اسے دیکھ کر وہی مزہ آتا ہے جو پہلی دفعہ دیکھ کر آتا تھا۔


جانگلوس


دو قیدی لالی اور رحیم داد کے جیل سے فرار کے بعد وسطی پنجاب کے پسِ منظر میں چلنے والے اس ڈرامے کو کون بھول سکتا ہے۔ شوکت صدیقی کے ایک اور بہترین ناول کو بنیاد بنا کر پی ٹی وی نے 1989 میں اس ڈرامے کو نشر کیا اور اس نے اپنے دور میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ ایم وارثی اور شبیر جان قیدیوں کے مرکزی کردار میں موجود تھے تو سلیم ناصر، شگفتہ اعجاز، ظہور احمد، اور دیگر نے بھی اپنے کریکٹرز سے بخوبی انصاف کیا۔ 'جانگلوس' میں با اختیار طبقے کے تاریک چہرے سے نقاب نوچا گیا تھا اور بظاہر یہی وجہ ہے کہ تین حصوں پر مشتمل ناول کا ایک ہی حصہ ٹیلیویژن اسکرین کی زینت بنا تھا کہ اور پھر یہ ڈراما بند کروا دیا گیا۔


سمندر


ڈائریکٹر یاور حیات اور قاسم جلالی کی مشترکہ کاوش کو امجد اسلام امجد نے تحریر کیا اور یہ اپنے دور کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے تقاریب کا وقت یا دن تک تبدیل کردیا جاتا جبکہ بازاروں میں سناٹا ہوجاتا، اس فلم پر ہی ایک انڈین فلم جال 1986 میں بنی۔ پانچ دوستوں شہباز خان (محبوب عالم)، قیصر(نثار قادری)، ابراہیم (عرفان کھوسٹ)، زمان اور احمد کمال (عابد علی) اور باقر کے گرد گھومتی یہ پرتجسس کہانی شروع سے آخر تک دیکھنے پر مجبور کردیتی ہے، جس میں سے ایک دوست باقر قتل ہوتا ہے تو زمان اس کے الزام میں عمرقید کی سزا کاٹتا ہے۔ یاسر (وسیم عباس) اس ڈرامے کا مرکزی کردار ہے اور اس کا بھائی ناصر (آصف رضا میر) باقر کے بیٹے ہیں جبکہ عابد کشمیری، عارفہ صدیقی اور بندیا نے بھی اہم کردار ادا کیے ہیں۔


دہلیز


ڈائریکٹر یاور حیات اور رائٹر امجد اسلام امجد کا ایک اور ماسٹر پیس، جس میں روحی بانو، محبوب عالم، عظمیٰ گیلانی، فردوس جمال، اورنگزیب لغاری اور خیام سرحدی جیسی اسٹار کاسٹ موجود تھی۔ یہ پی ٹی وی کے چند مقبول ڈراما سیریلز مٰں سے ایک ہے اور اب تک لوگ اس کی منفرد کہانی کو بھول نہیں سکے ہیں۔


انکل عرفی

اس ڈرامے کے بغیر یہ فہرست کیسے مکمل ہوسکتی ہے جو نشر ہوتے ہی پورے ملک میں ہٹ ہوگیا جس کی 26 قسطوں کا اتنی بے صبری سے انتظار کیا جاتا تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ حسینہ معین کی تھریر جبکہ محسن علی کی ڈائریکشن میں بنے اس ڈرامے میں شکیل نے کینیڈا سے پاکستان واپس آنے والے انکل عرفی کا کردار ادا کیا جبکہ ہیروئین بینا کے روپ میں شہلا احمد نظر آئیں، معاون کرداروں میں جمشید انصاری نے حسنات کے کردار سے اپنے کیرئیر کو عروج پر پہنچایا خاص طور پر ایک ڈائیلاگ 'چکو ہے میرے پاس' اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے۔بہترین کہانی، اچھی کردار نگاری اور باکمال ہدایات نے اس ڈرامے کو پی ٹی وی کی تاریخ کے چند یادگار ترین ڈراموں میں سے ایک بنادیا۔


آنچ


اداکار شفیع محمد کو شہرت دلانے والا یہ ڈراما گھریلو مسائل کو آشکار کرنے کے باعث خواتین میں تو بہت ہی زیادہ مقبول ہوا۔ ایک ادھیڑ عمر شخص کی پہلی بیوی جب اسے امریکا بسنے کے لیے طلاق لے کر چلی جاتی ہے تو اس کے بعد دوسری شادی اور بڑے ہوتے بچوں کی سوتیلی ماں سے کشمکش یہ سب عوامل صاف ظاہر ہے خواتین کے دلوں کو کچھ زیادہ ہی بھائے جب ہی یہ ڈراما اپنے دور میں انتہائی مقبول ثابت ہوا بلکہ سڑکوں کو سنسان کر دینے کا باعث بنا۔ ناہید سلطانہ اختر کے ایک ناول کے خیال پر مبنی اس ڈرامے کی ہدایات طارق جمیل نے دیں جبکہ شفیع محمد اور شگفتہ اعجاز نے مرکزی کردار ادا کئے۔


راہیں


مرحوم مصنف منشا یاد کے پنجابی ناول ٹاواں ٹاواں تارا کو جب اردو شکل میں پی ٹی وی کے لیے ڈھالا گیا تو وہ 'راہیں' کی شکل میں ایک مقبول ترین سیریل ثابت ہوا، جس نے 1998 میں پی ٹی وی نیشنل ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ طارق جمیل کی ہدایات سے سجے اس ڈرامے میں شہری اور دیہی علاقوں کے مسائل کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔ اس میں دیہی عوام کو سیدھا اور شہری افراد کو نخریلا دکھایا گیا اور تعلیم کی اہمیت کو سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ توقیر ناصر، سلیم شیخ، حبیب اور غیور اختر سمیت ہر اداکار اپنے کردار میں انگوٹھی کے نگینے کی طرح فٹ نظر آیا اور ان کا جادو اتنے عرصے بعد بھی لوگوں کے ذہنوں پر طاری ہے۔


ریزہ ریزہ


۔

اس ڈرامے کے ڈائریکٹر محمد ارشد تبسم جبکہ رائٹر افتخار حیدر تھے، اسے وسیم عباس اور توقیر ناصر کے کیرئیر کے بہترین ڈراموں میں سے ایک سمجھا جاسکتا ہے، جس میں وسیم عباس نے منفی کردار جبکہ توقیر ناصر نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔ منیر کے روپ میں توقیر ناصر بیوہ ماں کے ایسے بیٹے کے روپ میں نظر آئے جو پڑھ لکھ کر زندگی میں اعلیٰ مقام چاہتا ہے جبکہ آفرین ہے بھئی کے تکیہ کلام کے ساتھ وسیم عباس نے قادر کے روپ میں ولن میں ڈھل کر دکھایا ہے۔


فشار


قوی خان، ثمینہ پیرزادہ، محبوب عالم، وسیم عباس، توقیر ناصر، محمود اسلم، عارفہ صدیقی، طاہرہ واسطی، نعمان اعجاز، سہیل احمد اور عابد کشمیری جیسی اسٹار کاسٹ سے سجا یہ ڈراما ایوب خاور نے ڈائریکٹ جبکہ امجد اسلام امجد نے تحریر کیا، جس میں بیروزگاری سے نوجوانوں میں بگاڑ اور اس کے نقصانات کو بیان کرنے کے ساتھ سیدھی راہ پر چلنے والی مشکلات اور کامیابیوں کو بہت زبردست انداز سے پیش کیا گیا۔ اس ڈرامے سے پی ٹی وی نعمان اعجاز کی شکل میں نیا اسٹار ملا جبکہ دیگر ستاروں کے کیرئیر کو دوام ملا۔


دلدل


فردوس جمال اس ڈرامے کے مرکزی کردار ہیں اور انہوں نے اپنی کردار نگاری سے چونکا کر رکھ دیا جس میں منفی/مثبت شخصیت کے روپ میں نظر آتے ہیں اور بیوروکریسی کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ فردوس جمال کے علاوہ عارفہ صدیقی، نبیل، طاہرہ واسطی نے اہم کردار ادا کیے جبکہ مرزا اختیار بیگ نے اسے تحریر اور ایوب خاور نے ڈائریکٹ کیا۔

کامیڈی ڈرامے

یہ بھی دیکھیں : ہر دور کے مقبول ترین پاکستانی کامیڈی ڈرامے


ان کہی


ان کہی پاکستان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے خاص طور پر شہناز شیخ، جاوید شیخ، شکیل، سلیم ناصر، بہروز سبزواری اور جمشید انصاری کی بے مثال اداکاری اور دلوں میں گھر کر جانے والے ڈائیلاگز آج تک یاد کئے جاتے ہیں۔ شعیب منصور نے 1982 میں نشر ہونے والے اس ڈرامے کی ہدایات دی تھیں جبکہ یہ حسینہ معین کے قلم کا شاہکار تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پی ٹی وی پر حسینہ معین اور شہناز شیخ کا طوطی بولتا تھا اور اس ڈرامے میں بھی ان کا جادو سرچڑھ کر بولا۔ خاص طور پر شہناز شیخ کی اوٹ پٹانگ حرکتیں ناظرین کے دلوں میں ایسی بسیں کہ آج تک وہی موجود ہیں جبکہ اسی تھیم پر ہندوستان میں کئی فلمیں بھی تیار کی گئیں۔


اندھیرا اجالا


ایڈونچر پسند ناظرین آج تک پی ٹی وی پر نشر ہونے والے جرائم کی تحقیقات پر مبنی ڈرامے 'اندھیرا اجالا' کو نہیں بھولے۔ 1984-85 میں یونس جاوید کی تحریر اور رشید ڈار کی ہدایات میں بننے والے اس ڈرامے کو پاکستان میں جرائم کے خلاف پولیس کی مثبت کاوشوں کے اظہار کا پہلا ڈراما بھی کہا جا سکتا ہے تاہم یہ درحقیقت اس دور میں کامیڈی ڈرامے کے طور پر بھی دیکھا جاتا تھا۔ قوی خان نے اعلیٰ پولیس افسر کی شکل میں مرکزی کردار ادا کیا جبکہ جمیل فخری اور عرفان کھوسٹ نے بھی اپنے کرداروں کو لازوال بنایا۔ اس ڈرامے کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے عہد کے معروف اداکار فیصل قریشی بھی اس میں چائلڈ اسٹار کے طور پر موجود ہیں۔


سونا چاندی


ایک اور کلاسیک پی ٹی وی کامیڈی ڈراما سونا چاندی ہے جس کے اندر اس دور کے لاہور کے حقیقی کردار نظر آتے تھے- بنیادی طور پر یہ ایک جوڑے یعنی سونا چاندی کے گرد گھومنے والا ڈراما ہے جو سادہ مزاج اور معصوم میاں بیوی ہوتے ہیں اور مختلف گھروں میں کام کرتے ہوئے متعدد افراد کے مسائل حل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ ایک حقیقی جوڑے سونا اور چاندی سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا تھا جو ضلع بھکر کے رہائشی تھے، ڈرامے کے مصنف منو بھائی نے برصغیر کی تقسیم سے پہلے اسی جگہ تعلیم حاصل کی تھی اور اس جوڑے سے متاثر ہو کر ہی انہوں نے اسے تحریر کیا جسے راشد ڈار نے انتہائی خوبصورتی سے پیش کیا۔


تنہائیاں


تنہائیاں اسٹار کاسٹ جیسے شہناز شیخ، آصف رضا میر، بدر خلیل، بہروز سبزواری اور مرینہ خان سے سجا ہوا تھا۔ اس ڈرامے کے ہر اداکار نے اپنے کردار سے مکمل انصاف کیا اور اسے شاہکار بنا دیا۔ حسینہ معین کا اسکرپٹ اور شہزاد خلیل کی ہدایات میں بننے والا یہ ڈراما دو بہنوں کے گرد گھومتا ہے جو ایک حادثے میں اپنے والدین سے محروم ہوجاتی ہیں اور خالہ کے ساتھ مل کر زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے اور منزل کی جانب سفر جاری رکھتے ہوئے ان کا واسطہ کئی دلچسپ کرداروں سے پڑتا ہے اور یہ سفر دیکھنے والوں کو بھی اپنے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔


الف نون


کمال احمد رضوی اور ننھا پر مشتمل ڈراما 'الف نون' جس نے بھی دیکھا ہوگا، وہ اسے کبھی نہیں بھول سکتا، کیونکہ ایک تیز شخص کی چالاکیوں کا بھانڈہ اس کا سادہ لوح ساتھی کس طرح پھوڑتا ہے وہ دیکھنے کے لائق ہوتا تھا، ڈرامے کی ہر قسط میں ہی معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کو بہت خوبصورت اور تفریحی انداز میں پیش کیا جاتا تھا چاہے وہ کوئی انگلش میڈیم اسکول ہو یا کسی بلڈر کا آفس، کمال احمد رضوی کے قلم کا نشتر معاشرتی بگاڑ کو ہی نشانہ بناتا تھا۔


ففٹی ففٹی


ففٹی ففٹی شعیب منصور جیسے باصلاحیت ڈائریکٹر کا شاہکار تھا جس میں اسماعیل تارا، ماجد جہانگیر اور دیگر اداکاروں کے خاکوں نے اس دور میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا تھا بلکہ وہ آج بھی تازہ لگتے ہیں جس کی وجہ ان معاشرتی برائیوں کا تاحال موجود ہونا ہے، یہ اس دور کا ڈراما ہے جب ملک پر فوجی صدر ضیاءالحق کی حکومت تھی اور پی ٹی وی پر کافی پابندیاں تھیں ففٹی ففٹی کے خاکوں میں شگوفوں کے دوران ایسے معاملات کو دکھا دیا جاتا تھا جس کا تصور کرنا بھی مشکل لگتا تھا۔ مثال کے طور پر ففٹی ففٹی کا مشہور ٹریفک سارجنٹ (اسماعیل تارا) جو معاشرے میں موجود کرپشن کی منہ بولتی تصویر تھی-


آنگن ٹیڑھا


مزاح اور حاضر جوابی کے جملوں سے بھرپور یہ ڈراما انور مقصود کے کیریئر کا بھی سب سے بڑا شو سمجھا جا سکتا ہے۔ اپنے پہلے روز سے یہ ڈراما سلیم ناصر، شکیل، بشریٰ انصاری اور دردانہ بٹ کی بے مثال اداکاری کے باعث لوگوں کے دلوں میں ایسا بسا کہ اب تک اسے نکالا نہیں جا سکا ہے۔ ہر قسط میں مختلف مسائل کو ایسے پُر مزاح انداز میں پیش کیا جاتا کہ کسی کو گراں بھی نہیں گزرتا اور سماجی شعور بھی پیدا ہوتا۔ یہ ڈراما اب تک متعدد بار دوبارہ نشر ہو چکا ہے اور ہر نسل اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتی ہے جبکہ اس پر ایک سٹیج ڈراما بھی تیار کیا گیا ہے۔


خواجہ اینڈ سن


خواجہ اینڈ سن 1985 میں پی ٹی وی پر نشر ہونے والا ایک اور یادگار کامیڈی ڈراما ہے جو خواجہ صاحب (علی اعجاز) اور بیٹے جواد کے گرد گھوتا ہے، باپ اپنے بیٹے کی ہر غلطی یا غلط اقدام کو فوری طور پر پکڑنے میں ماہر ہوتا ہے اور اسے ٹھیک کراتا ہے، جبکہ اپنی نو بہنوں کے واحد بھائی جواد کو اپنی شاعری کی بدولت کافی جانا جاتا ہے اور پڑوسن تو اس کی دیوانی ہو جاتی ہے، یہ ایسا ڈراما ہے جس میں مزاح کے ساتھ اصول، خاندانی اقدار اور بزرگوں کے احترام جیسے اہم معاملات کو بھی تفریحی انداز میں پیش کیا گیا اور خواجہ، جواد اور لڈن میاں سمیت دیگر کئی کردار تو پاکستانی گھروں کے جانے مانے اسٹارز بن کر رہ گئے۔


گیسٹ ہاؤس


گیسٹ ہاوٴس پی ٹی وی کا ایک اور ایسا ڈراما ہے جس نے اپنے دور میں مقبولیت کے نت نئے ریکارڈز بنا دیئے تھے جس میں مسافروں کو درپیش مسائل کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیا جاتا تھا اور جس کا اصل ہیرو افضل خان عرف 'جان ریمبو' تھا۔ اس میں افضل خان نے ایک 'گیسٹ ہاوٴس' کے خاکروب کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ کردار اس قدر مشہور ہوا کہ نہ صرف لوگوں کے دل میں گھر کر گیا بلکہ افضل خان کو فن کی دنیا میں امر کر گیا۔


شہزوری

'میں بہت بری آدمی ہوں'، نیلوفر عباسی کا یہ ڈائیلاگ اب بھی لوگ بھول نہیں سکے ہیں، یہ لیجنڈ رائٹر حسینہ معین کی ڈیبیو سیریل تھی جو کہ ان کے کیرئیر کے چند مقبول ترین ڈراموں میں ایک ثابت ہوئی، یہ ایسے نوجوان جوڑے کی کہانی ہے جو اپنے والدین کو بتائے بغیر رشتہ ازدواج سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی کہانی شادی شدہ جوڑوں کی زندگی کے نشیب و فراز کو بیان کرتی ہے، تارا کے روپ میں نیلوفر عباسی ایسی مضبوط خاتون کے روپ میں نظر آئیں جو اپنے سسر محمود علی کا دل جیت لیتی ہیں جبکہ مصطفیٰ (شکیل) ایسے کم ہمت مرد تھے جو اپنی بیوی کے حق میں موقف اپنانے سے قاصر ہوتا ہے، اس کامیڈی ڈرامے میں ایسے متعدد مضبوط پیغامات دیئے گئے جو کہ آج کے دور سے بھی مناسبت رکھتے ہیں۔ اس ڈرامے کے ڈائریکٹر محسن علی تھے۔


جنجال پورہ

پی ٹی وی کا ایک ایسا ڈراما جس کے کردار آج بھی پاکستان کے معاشرے اور خاص کر آج کے سیاسی حالات میں نظر آتے ہے جیسے ماسی پھتو، راجو نائی، جنجال پورے کے سب سے مشہور کردار خواجہ سرا ریما اور ریشم، کم گوہ سادہ مزاج کھری بات کرنے والا پہلوان اور اس کے بیٹے کی محبت کی اور سادگی بھری باتیں۔ فیملی پلاننگ والوں کی چالاک نرسیں اور نئی آنے والی ڈاکٹر صاحبہ، جس میں سب لوگ بظاہر ایک محلے میں رہتے ہیں مگر سب ایک دوسرے سے ناخوش، ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا اپنی زندگی میں کامیابی اور اصل مقصد سمجھتا۔


چھوٹی سی دنیا


یہ ایک سادہ مگر بہت زبردست تفریحی ڈراما تھا جو لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کر دیتا تھا، اس کی کہانی ایک ایسے گاﺅں کے باسیوں کی تھی جہاں بیرون ملک سے ایک شخص واپس آتا ہے اور وہاں اسے صاحب کا درجہ مل جاتا ہے، مگر پھر اس کا ٹاکرا انگریزی بولنے کے میدان میں جانو جرمن نامی شخص سے ہو جاتا ہے جو دیکھنے والوں کو لوٹ پوٹ ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ہارون رشید کی ڈائریکشن اور عبدالقادر جونیجو کی تحریر کو یوسف علی، سکینہ سموں، انور سولنگ، آفتاب عالم اور دیگر نے بہت خوبصورتی کے ساتھ پردہ اسکرین پر پیش کیا۔


عینک والا جن


ویسے تو یہ ڈراما بچوں کے لیے تیار کیا گیا تھا مگر بڑوں میں بھی مقبول ہوا بلکہ اب بھی لوگوں کو یاد ہے، حقیقی کہانی، سائنس فکشن اور جادو کے مکسچر پر مبنی کہانی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی، یہ ایسے جن نسطور کی کہانی تھی جسے نظر کمزور ہونے پر زمین پر بھیجا گیا تھا تاکہ وہ علاج کراسکے اور پھر ایک دلچسپ ایڈونچر شروع ہوتا ہے، مرکزی کردار سے ہٹ کر ہامون جادوگر، زکوٹا جن اور بل بتوڑی کے کردار اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔ اس ڈرامے کو اے حمید نے لکھا تھا جبکہ ڈائریکٹر حفیظ طاہر تھے۔

لانگ پلے

مزید پڑھیں : پی ٹی وی کے دس بہترین لانگ پلے


روزی


معین اختر جس ڈرامے میں ہوں وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہوتا اداکاری ہو یا گلوکاری یا پھر میزبانی، انہوں نے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا جبکہ بات ہو اگر ڈراما سیریل 'روزی' کی تو اس معاملے میں انہوں نے صنف نازک بننے سے بھی گریز نہ کیا اور اپنے کردار میں اتنا جچے کہ کئی ان پر دل ہار بیٹھے، اس ڈرامے میں معین اختر بحیثیت اداکار کام ڈھونڈنے میں ناکامی کا سامنا کرتے ہیں تو مجبوراً انہیں لڑکی کا بہروپ کرنا پڑتا ہے بس پھر کیا تھا ہنسی کے قہقہوں کے ساتھ معاشرے کی خواتین کے بارے میں سوچ بھی واضح ہوجاتی ہے، ساحرہ کاظمی نے اس ڈرامے کو ڈائریکٹ کیا اور اس کی کاسٹ میں فضیلہ قاضی، لطیف کپاڈیہ، فریحہ الطاف اور اکبر سبحانی شامل تھے، اس ڈرامے نے اپنے وقت میں تو ریکارڈ قائم کیے ہی تھے آج بھی جب اسے دیکھا جائے تو روز اوّل جیسا ہی نیا محسوس ہوتا ہے۔


رگوں میں اندھیرا


اگر آپ کو اندھیرا اجالا پسند ہے تو ہوسکتا ہے کہ یہ بھی معلوم ہو کہ اسے بنانے کا خیال درحقیقت اسی طویل دورانیے کے ڈرامے کی کامیابی کو دیکھ کر آیا تھا جس میں مرکزی کردار راحت کاظمی نے ادا کیا تھا اور یہ اس دور میں منشیات کے پھیلاؤ اور اس کے سدباب کے حوالے سے بنایا گیا تھا۔


دروازہ


روحی بانو کے کیریئر کا سب سے یادگار کردار جس ڈرامے میں پیش ہوا وہ یہی تھا، منو بھائی کی تحریر کو ڈائریکٹر محمد نثار حسین نے ٹی وی اسکرین پر عکسبند کیا، یہ ایک خاتون کی ذاتی تکمیل کی جانب سفر کے اتار چڑھاﺅ پر مشتمل تھا، اس کی کاسٹ میں خالد عثمان، آصف رضا میر، سجاد کشور، ثروت عتیق، دردانہ بٹ اور عاصم بخاری بھی شامل تھے اور یہ کلاسیک ڈراما آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے۔


دبئی چلو

ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں لوگوں کے اندر دبئی جانے کا جنون سا سوار ہوگیا تھا اور اسی زمانے میں یہ زبردست ڈراما نشر ہوا، عارف وقار کے اس ڈرامے کے سب ہی کردار ایک سے بڑھ کر ایک تھے مگر جس منظر نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی وہ علی اعجاز کا تصویر اتروانا تھا جو کسی کے بھی چہرے پر مسکراہٹ بکھیر سکتا تھا، یہ ڈراما اتنا ہٹ ہوا کہ اسی کے اوپر ایک پنجابی فلم بھی بنائی گئی جس میں ڈرامے کی ہی کاسٹ کو لیا گیا اور وہ فلم بھی سپرہٹ ثابت ہوئی۔


ہاف پلیٹ

یہ خالدہ ریاست کی زندگی کا آخری ڈراما بھی سمجھا جاتا ہے جس کی کہانی خودساختہ دانشور اور کالم نگار (معین اختر) اور اس کی بیوی (خالدہ ریاست) کے گرد گھومتی ہے جو ایک دوسرے پر ہر وقت فقرے بازی کرتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی کمزوریاں ڈھونڈتے رہتے ہیں جبکہ ان کا بیٹا اپنے باپ کے نامکمل خواب کی تعبیر بننا چاہتا ہے، اسی لیے کسی شاعر کی طرح بات کرتا، چلتا اور بحث کرتا مگر شاعری انتہائی خوفناک تھی، یہ کردار جشمید انصاری نے نبھایا اور کمال ہی کردکھایا۔ ارشد محمود مالک مکان ہیں جو اس شاعروں کے گھرانے سے اپنے کرائے کی وصولی کے لیے پریشان رہتا ہے جبکہ بدر خلیل سے خالدہ ریاست کا کردار پریشان رہتا ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ وہ اس کے شوہر کے پیچھے ہے۔ کہانی میں اس وقت ٹوئیسٹ آتا ہے جب کینیڈا سے افتخار (لطیف کپاڈیا) کی آمد ہوتی ہے جس کی منگنی ماضی میں خالدہ ریاست کے کردار سے ہوئی تھی، انور مقصود کا تحریر کردہ یہ ڈراما آغاز سے اختتام تک دیکھنے پر مجبور کردیتا ہے۔

دھوپ دیوار

فردوس جمال اور روحی بانو کا یہ ڈراما بھی لوگ آج تک بھول نہیں سکے ہیں، جسے یونس جاوید نے تحریر کیا۔ اس ڈرامے میں روحی بانو ایک امیر جبکہ فردوس جمال متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ان دونوں کی شادی میں روحی بانو کے باپ رکاوٹ بن جاتے ہیں جو کہ پہلے گھرداماد بننے کی شرط رکھتے ہیں اور ماننے پر اسے گھروالوں سے دھوکا قرار دیتے ہیں اور بیٹی مان کر جاپان چلی جاتی ہے۔


کانچ کا پل

یونس جاوید کا تحریر کردہ طویل دورانیے کا یہ ڈراما ایک اور کلاسیک ہے جو روحی بانو کی لازوال اداکاری کی بناء پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، انسانی کردار کی پیچیدگیوں کے گرد گھومتا ہوا یہ ڈراما روحی بانو کے ساتھ بیگم خورشید مرزا، فردوس جمال اور توقیر ناصر کے کریئر میں بھی ناقابل فراموش حیثیت رکھتا ہے، درحقیقت توقیر ناصر کا عروج کی جانب سفر ہی اس ڈرامے سے شروع ہوا تھا۔