ترکی : جنسی زیادتی کے متنازع قانون کے خلاف مظاہرے
استنبول: ترکی میں جنسی زیادتی سے متعلق حکومت کے مجوزہ متنازع قانونی بل کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا ہے، مجوزہ بل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں خواتین اور مردوں کی بھی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
ترک حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی جانب سے پیش کردہ نئے بل کے مطابق کم عمر لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والا مرد متاثرہ لڑکی سے شادی کرنے کے بعد سزا سے بچ سکتا ہے۔
حکومت کی جانب سے تیار کردہ اس متنازع بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے اس کی پہلی منظوری دے دی گئی ہے،بل کو قانون کا حصہ بنانے اور اس کی حتمی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں 22 نومبر سے بحث شروع ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی :جیلوں میں گنجائش ختم،38 ہزار قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ
حکومت کے مطابق بل جنسی زیاتی کے مرتکب ملزمان کو سزا سے بچانے کے لیے نہیں ہے، جب کہ مجوزہ بل کے خلاف مظاہرے کرنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ بل کے ذریعے جنسی زیادتی کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردگان کی جانب سے پیش کردہ اس بل کو ترکی کے مختلف سیاستدانوں،سماجی کارکنان اور یہاں تک کے رجب طیب اردگان کی بیٹی نے بھی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے، مگر حکومت کا اصرار ہے کہ بل کا مقصد بچوں کی شادیوں کے مسائل سے نمٹنا ہے۔
ترکی کے وزیر انصاف باکر بوزداخ کا استبول میں ہونے والے نیٹو اجلاس کے دوران کہنا تھا کہ کا بل کا مقصد جنسی زیادتی کے مجرمان کو معافی دینا نہیں ہے بلکہ مجوزہ بل کے ذریعے ملزمان کو یقینی سزا دلانا ہے۔
مزید پڑھیں: ترکی : آرمی چیف بازیاب،فوجی بغاوت کا باب ہمیشہ کیلئے بند
دوسری جانب مجوزہ بل کے خلاف مظاہرے شروع ہونے کے بعد ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے اے کے پارٹی کو ہدایت کی ہے کہ وہ مجوزہ بل سے متعلق حزب اختلاف کی تمام پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرے۔
متنازع مجوزہ بل کے خلاف مظاہرہ کرنے والے لوگوں کو خدشہ ہے کہ حکومت اس بل کو پارلیمنٹ سے پاس کروانے میں کامیاب ہوجائے گی، کیونکہ حکمران پارٹی اے کے پی کو 550 ممبران پر مشتمل پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے،حکمراں جماعت کے ممبران کی تعداد 317 ہے۔
تصاویر دیکھیں:جب ترک عوام نے فوجی بغاوت ناکام بنائی
مجوزہ بل کے خلاف مظاہرہ کرنے والے لوگوں نے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی،جب کہ مظاہرین نے ریپ کو قانونی شکل نہیں دی جاسکتی ۔
مظاہرے میں شریک خواتین کا کہنا تھا کہ بل پاس ہونے کے بعد وہ تمام ملزمان جیلوں سے آزاد ہو جائیں گے جو جنسی زیادتی کے مقدمات میں قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
متنازع مجوزہ بل پیش کرنے کے بعد ترک حکومت کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مختلف تنظیموں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ترک حکومت کو کئی عالمی اور سماجی تنظیمیں رواں برس جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد مسلسل تنقید کا نشانہ بناتی آرہی ہیں۔
فوجی بغاوت ناکام ہونے کے بعد ترک حکومت نے قدرے سخت اقدامات اٹھاتے ہوئے سرکاری افسران،اساتذہ، عدالتی حکام اور فوجیوں سمیت ایک لاکھ سے زائد افراد کو نوکریوں سے برطرف اور گرفتار کیا ہے۔