پاکستان

پاک ترک اسکولز کے اساتذہ کو وزارت داخلہ سے رجوع کرنے کا حکم

اسکول کے اساتذہ کو ملک چھوڑنے کے لیے ناکافی وقت دیا گیا، درخواست گزار وزارت داخلہ سے دوبارہ رجوع کریں، عدالت

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے پاک ترک اسکولز کے اساتذہ کو ملک چھوڑنے کے حوالے سے دائر درخواست پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ نے اساتذہ کو ملک چھوڑنے کے لیے بہت کم وقت دیا ہے، عدالت نے اساتذہ کو وزارت داخلہ سے دوبارہ رجوع کرنے کا حکم دیتے ہوئے درخواست نمٹا دی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے پاک ترک اسکولز کے چیئرمین عالمگیر خان سمیت تین اساتذہ کی جانب سے تین دن میں ملک چھوڑنے اور وجہ بتائے بغیر ویزوں میں توسیع نہ دینے کی درخواست پر سماعت کی جس میں وزارت داخلہ کی جانب سے ویزہ آفیسر محمد حفیظ پیش ہوئے جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ وزارت داخلہ کا جوائنٹ سیکریٹری کیوں پیش نہیں ہوا؟

جس پر سرکاری وکیل چوہدری عبدالخالق تھند نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ میٹنگ میں ہیں، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیا وزارت داخلہ میں صرف ایک جوائنٹ آفیسر ہے؟ دن ڈھائی بجے کون سی میٹنگ ہوتی ہے؟ کیا سرکاری وکیل نے وزارت داخلہ حکام کو آگاہ کیا تھا؟

بعدازاں عدالت نے جوائنٹ سیکریٹری کو طلب کیا جس پر ڈپٹی سیکریٹری نائلہ ظفر اور جوائنٹ سیکریٹری سلمان قیوم عدالت پیش ہوئے، افسران نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 22 جون اور اگست میں ویزوں کی توسیع کی درخواستوں کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود نہیں اور نہ ہی جون اور اگست میں درخواست دی گئی تھی جبکہ پاک ترک اسکولز کے اساتذہ کے ویزوں کی معیاد 9 ستمبر کو ختم ہوچکی ہے۔

مزید پڑھیں: پاک ترک اسکولز کے عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم

اس کے علاوہ وزارت داخلہ کے حکام نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حال ہی میں وزارت داخلہ میں فاونڈیشن کی درخواست آئی ہے جبکہ ساتھ ہی عدالت میں پٹیشن دائر کی ہے اور درخواست کے ساتھ فاؤنڈیشن کے کاغذات لگائے ہیں۔

جس پر جج نے ریمارکس دیئے کہ اساتذہ کو ملک چھوڑنے کے لیے صرف 6 دن کا وقت دیا گیا ہے جو ناکافی ہے، عدالت نے درخواست گزاروں کو وزارت داخلہ سے دوبارہ رجوع کرنے کا حکم دیتے ہوئے درخواست نمٹا دی ہے۔

خیال رہے کہ پاک ترک اسکولز کے اساتذہ نے وزارت داخلہ کا حکم عدالت عالیہ میں چیلنج کیا تھا اور درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ وزارت داخلہ نے ترک اساتذہ کو وجہ بتائے بغیر ویزوں میں توسیع سے انکارکر دیا جبکہ 22 جون کو ویزہ توسیع کی درخواست دی جسے 11 نومبر کو وجہ بتائے بغیرمسترد کر دیا گیا تھا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ 14 نومبر کو وزارت داخلہ نے 6 دنوں میں ملک چھوڑنے کا حکم بھی جاری کر دیا۔

اس حوالے سے انھوں نے کہا کہ اگر ترک اساتذہ 6 دنوں میں ملک چھوڑتے ہیں تو ملک بھر میں 26 پاک ترک اسکولز میں 11ہزار طالب علموں کا تعلیمی سیشن متاثر ہوگا اور 100 سے زائد ترک اساتذہ کی واپسی سے ان کے خاندان کے 400 افراد بھی متاثر ہونگے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک ترک اسکولز غیر یقینی صورتحال سے دوچار

درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ ان کے اپنے بچے بھی پاک ترک اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں جن کا سیشن مارچ 2017 میں اختتام پذیر ہوگا۔

انھوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وزارت داخلہ کی جانب سے ملک چھوڑنے کے حکم کو کالعدم قرار دیا جائے اور تعلیمی سیشن کے اختتام تک ترک اساتذہ کے ویزوں میں توسیع اور ملک میں قیام کی اجازت دی جائے۔

یاد رہے کہ اگست کے مہینے میں پاکستان نے پاکستان کا دورہ کرنے والے ترک وزیر خارجہ میلود چاووش اوغلو سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاک ترک اسکولز کے معاملے پر غور کرے گا جسے ترکی نے امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن سے روابط کا الزام عائد کرکے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اپنے دورے کے دوران میلود چاووش اوغلو نے کہا تھا کہ ’یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گولن کی تنظیم پاکستان اور دیگر ممالک میں کئی اداروں کو چلارہی ہے، مجھے یقین ہے کہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کیے جائیں گے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ان اداروں اور ان سے درپیش ہر اس ملک کے استحکام و سلامتی کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے جہاں یہ موجود ہیں‘۔

واضح رہے کہ پاک ترک اسکولز اور کالجز کے نیٹ ورک کا قیام 1995 میں اس غیر ملی این جی او کے تحت عمل میں آیا تھا جو ترکی میں رجسٹرڈ تھی۔

مزید پڑھیں: 'فتح اللہ' کے خلاف پاکستان کا تعاون حاصل: ترکی

اسکول کے سینیئر عہدے دار نے بتایا تھا کہ ابتداء میں پاکستان میں عالمی معیار کے کیمپس کے قیام کیلئے ترکی سے فنڈز آتے تھے لیکن گزشتہ 15 برس سے ادارہ اپنے اخراجات کیلئے فنڈز خود اکھٹے کررہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاک ترک اسکولز نیٹ ورک 35 فیصد طلبا کو مفت تعلیم اور قیام و طعام کی سہولت فراہم کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ذہین طالب علموں کو بیرون ملک تعلیم کیلئے اسکالر شپ بھی دی جاتی ہیں۔

28 اسکولز اور کالجز کا یہ نیٹ ورک لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان ، کراچی، حیدرآباد، خیرپور، جامشورو اور کوئٹہ میں پھیلا ہوا ہے جس میں 1500 ملازمین ہیں اور ان میں سے 150 ترک شہری ہیں، ان تعلیمی اداروں میں مونٹیسری سے اے لیول تک 11 ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔

اگست کے دوسرے ہفتے میں پاکستان میں پاک ترک اسکولز کی انتظامیہ نے 28 اسکولز اور کالجز کے ترک پرنسپلز کو عہدے سے ہٹادیا تھا جبکہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کو بھی تحلیل کردیا گیا تھا جس میں ترک باشندوں کی بھی نمائندگی تھی۔

اس اقدام کو پاک ترک اسکول سسٹم کا کنٹرول کسی دوسری آرگنائزیشن کے حوالے کرنے کے حکومتی ارادے کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

وفاقی حکومت میں موجود ایک ذریعے نے بتایا کہ ترک حکومت نے تجویز دی تھی کہ ان اسکولوں کا انتظام ایک غیر ملکی این جی او کے سپرد کردیا جائے جس کے اردگان انتظامیہ کے ساتھ اچھے روابط ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاک ترک اسکولز کے انتظامی عہدوں میں تبدیلی'

انتظامیہ نے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹس میں درخواستیں بھی دائر کررکھی ہیں جن میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کو کسی بھی ایسے غیر قانونی اقدام سے روکے جس سے طالب علموں کا مستقبل خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہو۔

والدین کا بھی یہ کہنا ہے کہ انتظامیہ کی تبدیلی سے تعلیمی معیار بری طرح متاثر ہوگا۔

گزشتہ ماہ وزارت خارجہ امور نے اسلام آباد کو آگاہ کیا تھا کہ حکومت ان اداروں کو بند کرنے نہیں جارہی اور نہ ہی اسے ترک حکومت کی جانب سے انتظامی کنٹرول کسی تیسرے فریق کے حوالے کرنے کی درخواست موصول ہوئی ہے۔

عدالت میں پٹیشن ان افواہوں کے سامنے آنے کے بعد دائر کی گئی تھی کہ مبینہ طور پر فتح اللہ گولن سے تعلق رکھنے والے پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے 28 تعلیمی اداروں کو صدر طیب اردگان کی حامی معارف فاؤنڈویشن کے زیر انتظام کردینا چاہیے۔

اپنے تحریری پیغام میں وزارت خارجہ امور نے کہا کہ ’پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بند کرنے کا مطالبہ کسی بھی حلقے کی جانب سے سامنے نہیں آیا‘۔