صنفی تفاوت کے اعتبار سے پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
کچھ عرصہ قبل مشہورِ زمانہ برطانوی ملٹی نیشنل ریٹیلر مارکس اینڈ اسپنسر کے سابق ایگزیکٹو چیئرمین سر اسٹیوارٹ روز نے ایک جگہ کہا تھا کہ، "لڑکیوں کے لیے حالات پہلے کبھی اتنے اچھے نہیں تھے۔ ایک تو آپ کو ضرورت سے زیادہ مساوات مل گئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ حقیقی جمہوریت بھی حاصل ہوئی ہے، آپ کی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی حالانکہ آپ اس کے بارے میں واویلا کرتی رہتی ہیں، اب آپ خلا نوردی کر رہی ہیں، دندان ساز ہیں، ڈاکٹرز ہیں، مینیجنگ ڈائریکٹرز ہیں، آپ کو سب کچھ تو حاصل ہے۔"
اس کے جواب میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مشہور صحافی اور مصنفہ جوڈتھ اور کا کہنا تھا "اسٹیوارٹ صاحب، عورتوں کو مساوی معاوضہ نہیں ملتا، حقیقی سیاسی نمائندگی نہیں ملتی، زنا بالجبر کا شکار ہونے والی خواتین کو انصاف نہیں ملتا، مردانہ بالادستی کے دقیانوسی تصورات کا خاتمہ نہیں ہو پاتا۔ یہ ایک لامتناہی فہرست ہے۔ ویسے یہ صحیح ہے کہ 1970 سے اب تک عورتوں نے بہت سی جنگیں جیتی ہیں۔ ان پر بہت سی نئی ملازمتوں کے دروازے کھل گئے ہیں، تولیدی صحت سے متعلق ادویات کی ایجاد اور عائلی قوانین کی بدولت عورتوں کی ذاتی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔"
یہ تو رہی مغربی ملکوں کی بات جہاں صنفی تفاوت کی کمی تو ہے، مگر پھر بھی سماجی دائرے میں خواتین کے مسائل پوری طرح ختم نہیں ہوئے اور چند شکلوں میں عورتوں پر استحصال اب بھی جاری ہے۔
پڑھیے: معاشی خودکفالت، خواتین کے مسائل کا حل
اس بحث کو فی الحال یہیں چھوڑتے ہیں۔ اب آئیے پاکستان میں موجود صنفی تفاوت کی بات کرتے ہیں۔ اگر ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی تفاوت کی درجہ بندی برائے 2016 کا جائزہ لیا جائے تو افسوس ناک نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس رپورٹ میں 144 ممالک کا جائزہ لیا گیا اور صنفی تفاوت کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 143 واں رہا۔
عالمی صنفی تفاوت کی انڈیکس کو ورلڈ اکنامک فورم نے 1906 میں متعارف کروایا تھا تاکہ صنفی تفاوت کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ سماج کی ترقی عورتوں کی ترقی سے جڑی ہوئی ہے۔ عورتیں دنیا کی آبادی کا قریب نصف حصہ ہیں، انہیں نظرانداز کر کے دنیا قطعی طور پر ترقی نہیں کر سکتی۔
میرا سوال یہ ہے کہ صنفی تفاوت اور صنفی مساوات سے ہم کیا مراد لیتے ہیں؟
ظاہر ہے کہ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ اگر عورت حاملہ ہوتی ہے تو مرد کو بھی حمل ٹھہرنا چاہیے یا عورت کو ماہواری آتی ہے تو مرد کو بھی آنی چاہیے۔
ظاہر ہے مرد اور عورت جسمانی طور پر مختلف ہیں۔ ہمیں اس فرق کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس فرق کا احترام بھی کرنا چاہیے۔ مگر معاشرے میں صرف معاملہ صرف جسم کا نہیں، بلکہ ذہن، احساس، عزت نفس اور روحانی مراحل کا بھی ہے۔
نہ تو سارے مرد ذہین اور دانشمندی کا ذخیرہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ساری خواتین ناقص العقل ہوتی ہیں، ضروری نہیں کہ ہر مرد سنگ دل اور بے حس ہو اور اجارہ دارانہ ذہنیت کے مالک ہوں اور ہر عورت حساس اور نرم دل ہو۔
مگر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں رہنے والے تمام مرد اور عورت اپنے وجود اور جسمانی روپ سے پہلے انسان ہیں۔ محبت، نفرت، غم و غصہ، ہنسنا رونا ہر احساس اور بنیادی طلب ایک سی ہی تو ہے۔
مزید پڑھیے: میرے دیس کی خانزادیاں
مسئلہ اس وقت پیدا ہو جاتا ہے جب معاشرے میں ایک گھٹن زدہ سوچ مختلف نظریات کے لبادوں میں تھوپ دی جاتی ہے اور ایسے عناصر ہمیں یہ بتانا شروع کرتے ہیں کہ عورت تو رو دھو سکتی ہے مگر مرد کو رونا بالکل زیب نہیں دیتا کیوں کہ یوں اس کی مردانگی پر حرف آتا ہے۔
اس مردانگی پر حرف آنا ہی سارے مسائل کی جڑ ہے۔ مرد گھریلو کام کاج میں عورت کا ہاتھ نہیں بٹا سکتا کیوں کہ یوں اس کی مردانگی پر حرف ہے۔ اگر مرد بیوی کا خیال رکھے تو اسے زن مرید کہا جاتا ہے۔ اگر وہ اپنی بیوی یا بیٹی کو نوکری کی اجازت دے تو اس کی غیرت پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔
بالخصوص ہمارے معاشرے نے مرد اور عورت کے درمیان تقسیم کے اتنے سخت اصول اور رسوم و رواج بنا رکھے ہیں کہ ان سے انحراف کرنے والوں کو بہت کچھ سہنا اور سننا پڑتا ہے۔
بہرحال ترقی کرنا اور آگے بڑھنا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ وقت کے ساتھ رسوم و رواج بدلتے رہتے ہیں۔ اب سماج کو مردوں اور عورتوں کو مساوی مواقع دینا ہوں گے۔ دونوں کے ساتھ مساوی سلوک کرنا ہوگا اور صنفی بنیاد پر ہونے والے ہر طرح کے امتیاز کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ غربت کے خاتمے، تعلیم اور طبی سہولتوں تک رسائی، معیشت اور فیصلہ سازی کے عمل میں شمولیت کے حوالے سے یہ بین الاقوامی جہت بھی رکھتا ہے۔
اس وقت دنیا بھر کے ماہرین کا ماننا ہے کہ یورپی یونین کی سماجی اور اقتصادی پالیسیاں سب سے زیادہ آزاد خیال سیاسی ایجنڈا تخلیق کرتی ہیں اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یورپی یونین کو سماجی جمہوریت کا مبلغ سمجھا جاتا ہے، یعنی ان کی پالیسیاں تمام انسانوں کی برابری کے قائل سوشلسٹ اصولوں کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں۔ اس لیے اس کی صنفی پالیسیوں کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔
اس صنفی مساوات کی درجہ بندی کے مطابق آئس لینڈ اول نمبر پر ہے۔ آئس لینڈ میں خواتین کس طرح اس فرق کو مٹانے میں کامیاب رہیں، اس کے کچھ آثار ہمیں تاریخ سے مل سکتے ہیں۔
سمندروں سے گھرے اس ملک میں اکثر مرد بحری سفر پر گئے ہوتے تو وہاں کی خواتین ہی گھر کی دیکھ بھال اور دیگر ضروریات زندگی جیسے شکار، کھیتی کرنا، تعمیراتی کاموں کو کیا کرتی تھیں۔
جانیے: پاکستانی خواتین کی موجودہ نسل تبدیلی لائے گی
1975 تک وہ نہ صرف کم اجرت سے بیزار آ گئی تھیں بلکہ اپنی سیاسی نمائندگی کی عدم موجودگی سے بھی اکتا چکی تھیں سو انہوں نے ایک جامع جدوجہد کا اعلان کر دیا، 25 اکتوبر کو 25 ہزار خواتین اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں جبکہ آئس لینڈ کی 90 فیصد خاتون آبادی نے ہر طرح کے گھریلو اور پروفیشنل کام کرنے چھوڑ دیے۔ اس احتجاج کا اثر اس قدر طاقتور تھا کہ اگلے 5 برس بعد آئس لینڈ میں ایک خاتون صدر بن کر سامنے آئیں۔
خیر یہ تو ترقی یافتہ ممالک کی باتیں ہیں۔ ہمیں اپنے معروضی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے پدرسری اور طبقاتی نظام کے خاتمے کے لیے بھی جدوجہد کرنا ہوگی۔ مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے عوام اور اداروں کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔
پاکستان کی نصف آبادی کو اگر اختیار نہ ملے تو ترقی کا راستہ نہ صرف کٹھن بلکہ ناممکن ہو گا۔ جامع سوچ کی تبدیلی درکار ہے جس میں عورتوں کو ہر میدان میں مساوی حصہ داری دی جائے۔
صنفی مساوات کے حصول کے لیے پاکستان کو ایک فلاحی مملکت بنانا ضروری ہے۔ 1966 میں لگایا جانے والا نعرہ آج پھر اپنی اہمیت منوانے پر تلا ہوا ہے "اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں"۔ سچ پوچھیے تو صنفی مساوات سوشلسٹ اصولوں کے تحت ہی ممکن ہو سکتی ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں سے ہمیں یہی سبق حاصل ہوتا ہے۔
مہناز رحمان عورت فاؤنڈیشن کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔