پاکستان

آپ کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی وکیل سے سوال

پاناما لیکس کی سماعت کےدوران عدالت عظمیٰ کا تحریک انصاف کی جانب سے جمع کرائے گئے شواہد کا 'داستانِ الف لیلیٰ' سے موازنہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے پاناما لیکس کے معاملے پر جمع کرائے گئے شواہد پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ 680 صفحات پر مشتمل جواب کا شریف خاندان کی لندن میں موجود جائیدادوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔

سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے سوال کرتے ہوئے جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ 'لگتا ہے پٹیشنز دائر کرنے کا مقصد سچ کو ایسے ثبوتوں تلے دبانا تھا جن میں اخبار کے تراشوں کے سوا کچھ موجود نہیں، یہ اخبارات اشاعت کے ایک روز بعد صرف پکوڑے فروخت کرنے کے کام آسکتے ہیں۔'

عدالت کا کہنا تھا، 'ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کون سا وکیل کس کی نمائندگی کررہا ہے۔'

پی ٹی آئی کی جانب سے جمع کرائے گئے شواہد کا 'داستانِ الف لیلیٰ' سے موازنہ کرتے ہوئے جسٹس سعید کا کہنا تھا کہ ہم نے 6 گھنٹے صرف متعلقہ دستاویزات ڈھونڈنے میں صرف کردیئے، انہوں نے مضحکہ خیز انداز میں حامد خان سے دوبارہ سوال بھی کیا کہ وہ کس کی نمائندگی کررہے ہیں۔

تاہم پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطالعے کے بعد تنازع پر زیادہ غور کریں گے اور اس کے لیے انہیں مزید وقت درکار ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقین کارروائی کو ملتوی کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عدالت کا یہ اندازہ کہ معاملے کا حل کمیشن کے قیام کے بغیرحل ہوجائے گا، غلط ہوتا نظر آرہا ہے۔

عدالت نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو موصول ہونے والی دستاویزات کی تعداد واضح کرتی ہے کہ کارروائی 6 ماہ میں بھی مکمل نہیں ہوسکے گی۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس: شریف خاندان کے خلاف شواہد سپریم کورٹ میں جمع

چیف جسٹس نے یہ بھی واضح کیا کہ چونکہ سماعت آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت ہورہی ہے لہٰذا عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ ہونے کے سبب اس کے نتائج سنجیدہ ہوسکتے ہیں، اسی لیے عدالت احتیاط سے کام لے رہی ہے اور باریکیوں کو نظرانداز کررہی ہے تاکہ بعد میں کوئی یہ دعویٰ نہ کرسکے کہ اسے اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔

عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بینچ کو بتایا کہ پورے ملک کی نظریں عدالت کے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں اوراس معاملے میں وقت سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

قطری شہزادے کے تحریری بیان کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ رشید کا مزید کہنا تھا کہ 'آج قطر سے ایک دستاویز سامنے آئی ہے، کل مہاتما گاندھی کی کوئی دستاویز، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے تصدیق کرواکر عدالت میں جمع کرادیں گے۔'

سابق قطری وزیر خارجہ کی جانب سے پیش کی جانے والی دستاویز کے پیچھے چھپے مقصد پر سوال اٹھاتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ ایک بار جھوٹ بولنے والا بار بار جھوٹ بولتا ہے۔

واضح رہے کہ اس دستاویز کے مطابق، لندن میں موجود جائیدادیں الثانی فیملی کے قبضے میں تھیں جس کے بعد انہیں 2006 میں حسین نواز کو منتقل کیا گیا۔

شیخ رشید نے عدالت کو معاملہ جوڈیشل کمیشن کو دینے سے منع کرتے ہوئے اظہارِ خیال کیا کہ بنچ کو سماعت کے بعد معاملہ خود حل کرنا چاہیے۔

شیخ رشید کے ریمارکس سننے کے بعد جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر وہ وکالت کو اپنا پیشہ بنالیتے تو زیادہ کامیاب ہوتے۔

اس سے قبل جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی جانب سے پیش ہونے والے اسد منظور بٹ نے عدالت کو جوڈیشل کمیشن کے قیام کی تجویز دی تھی تاکہ ہر کسی کو کمیشن میں اپنا کیس پیش کرنے کا موقع میسر آسکے۔

پٹیشن دائر کرنے والے ایک اور شخص طارق اسد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو پاناما لیکس میں سامنے آنے والے ان افراد کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو حکومت، اپوزیشن کا حصہ ہیں اور حکومتی سروس سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس: وزیراعظم اور بچوں نے دستاویزات جمع کرادیں

طارق اسد کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف تحقیقات کے آغاز کی درخواست بھی کی گئی۔

جس پر چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ درخواست گزاروں سے مخاطب ہیں یا جواب دہندگان سے، چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا کام یہ نہیں کہ 1947 تک ہونے والی تمام کرپشن کی تحقیقات کرے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے عمران خان کی پٹیشن کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا ہے کیونکہ اس میں لندن کے چار فلیٹس سے متعلق معاملے کو سامنے لایا گیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے کارروائی جمعرات 17 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے تمام جماعتوں کو دستاویزات دن کے اختتام تک جمع کرانے کی ہدایت دی۔

یہ خبر 16 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی