'حکمت یار سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا جائے گا'
کابل: افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل (این ایس سی) کا کہنا ہے کہ افغان حکومت جلد اقوام متحدہ کو خط لکھے گی جس میں ان سے حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار پر موجود پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔
افغان خبر رساں ادارے طلوع نیوز کے مطابق این ایس سی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ انھیں اُمید ہے کہ اقوام متحدہ اس حوالے سے کابل کی مدد کرے گا۔
انھوں نے بتایا کہ 'یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ افغان حکومت اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کو پابندیاں ہٹانے کے لیے خط لکھے گی اور اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ پر زور دیا جائے گا کہ وہ افغان حکومت کے مطالبے کو پورا کرے'۔
دوسری جانب حزب اسلامی کے مذاکراتی وفد کے چیئرمین امین کریم نے افغان حکومت کو امن معاہدے پر عمل درآمد میں سست روی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔
مزید پڑھیں: حکمت یار، اشرف غنی نے امن معاہدے پر دستخط کردیئے
انھوں نے کہا کہ 'افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ اور متعلقہ ممالک کو خط تحریر کرے جو حکمت یار پر موجود پابندیوں کو ہٹانے کے حوالے سے ہو'۔
امین کریم نے مزید کہا کہ اس کے بعد حزب اسلامی مکمل جنگ بندی اور عسکری عناصر کو ختم کرنے کا اعلان کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ 'ہم نے اپنے تمام وعدوں پر عمل درآمد کیا اور ان کو پورا کرنے کیلئے تیار ہیں، ہمارا مؤقف ہے کہ ہم نے ملک بھر میں جنگ بندی پر عمل درآمد کیا ہے اور ہم سیکیورٹی کیلئے حکومت سے تعاون کررہے ہیں'۔
افغان میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد قانون سازوں نے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ اقوام متحدہ حکمت یار پر موجود پابندیوں کو اٹھانے میں تعاون کرے گی۔
افغان قانون سازوں نے ساتھ میں یہ مطالبہ بھی کیا کہ حزب اسلامی امن معاہدے پر عمل کرے جو اس کے اور افغان حکومت کے درمیان طے پایا چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان معاہدے کا خیر مقدم
خیال رہے کہ اتوار کے روز اقوام متحدہ کے ایک وفد نے کابل میں قائم صدارتی محل میں صدر اشرف غنی سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں حکمت یار پر موجود پابندیوں کو ہٹانے کے معاملات بھی زیر غور آئے تھے۔
اس ملاقات میں اقوام متحدہ کے وفد نے افغان حکومت کو حزب اسلامی پر موجود پابندیوں کو ہٹانے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز افغان صدر اشرف غنی نے ملک میں امن کے قیام کو نقصان سے بچانے کیلئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ طالبان سربراہ مولوی ہیبت اللہ سمیت دیگر شدت پسندوں کے نام پابندیوں کی فہرست میں شامل کردیں۔
افغان صدر کی جانب سے یہ مطالبہ ایسے موقع پر سامنے آیا جب افغان فورسز کو ملک میں طالبان جنگجوؤں کی جانب سے متعدد اہم علاقوں میں شدید مزاہمت کا سامنا ہے۔
29 ستمبر 20116 کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں صدر اشرف غنی اور ملک کے سابق جنگجو سربراہ گلبدین حکمت یار نے افغان امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
مزید پڑھیں: افغان حکومت،حزب اسلامی میں معاہدےکامسودہ تیار
اس سے قبل 22 ستمبر کو افغانستان میں صدر اشرف غنی کی انتظامیہ اور حزب اسلامی کے وفد نے امن معاہدے پر دستخط کردیے تھے تاہم صدر اشرف غنی اور حکمت یار کے دستخط کے بعد معاہدے پر عمل درآمد کیا جانا تھا۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی گلبدین حکمت یار کے ملک کی سیاست میں آنے کے امکانات ایک مرتبہ پھر روشن ہوجائیں گے۔
یاد رہے کہ گلبدین حکمت یار کو افغان وار لاڈ کے طور پر جانا جاتا ہے، جو ملک کے ایک اہم عسکری گروپ حزب اسلامی کے سربراہ ہیں۔
افغانستان کی دوسری بڑی عسکری جماعت کے ساتھ طے پانے والے مذکورہ معاہدے کو ملک میں امن عمل کیلئے کام کرنے والے صدر اشرف غنی کی بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔
معاہدے کے ڈرافٹ کے مطابق افغان حکومت، گلبدین حکمت یار کو 'تمام سابقہ سیاسی اور فوجی مقدمات' میں قانونی استثنیٰ اور ان کی تنظیم کے قید کارکنوں کو رہا کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت، حزب اسلامی امن معاہدے کے قریب
یہ بھی یاد رہے کہ گلبدین حکمت یار کو امریکا کی جانب سے عالمی دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے انھیں بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔
ان مذکورہ پابندیوں کو اٹھانے کیلئے بھی افغان حکومت اقدامات اور کوششیں کرے گی تاکہ انھیں مقامی سیات میں لایا جاسکے۔
گلبدین افغان خانہ جنگی کا اہم کردار
گلبدین حکمت یار کو کئی دہائیوں تک افغان جنگ کا تجربہ ہے، وہ حزب اسلامی کے سربراہ ہیں جس کو دائیں بازو کا مسلح گروہ مانا جاتا ہے جس کو 90 کی دہائی کے اوائل میں افغانستان میں خانہ جنگی کا ذمہ داروں میں سے ایک کردار بھی قرار دیا جاتا رہا ہے، گلبدین حکمت یار کچھ عرصے کے لیے افغانستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔
افغانستان کے سابق وزیر اعظم انجینئر گلبدین حکمت یار کی زیرقیادت تنظیم حزب اسلامی نے 1977 سے 1992 تک روس کے خلاف جنگ میں متحرک ترین کردار ادا کیا تھا جبکہ حزب اسلامی پر 1992 سے 1996 کی افغان خانہ جنگی کے دوران کابل میں بڑے پیمانے پر مخالفین کو ہلاک کرنے کا بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے، 2001 میں افغانستان میں امریکا کی فوجی دخل اندازی کے بعد گلبدین حکمت یار اور ان کی جماعت کو حکومت میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے افغانستان میں امریکا کے خلاف جنگ لڑنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: افغان حکومت، گلبدین حکمت یار کے درمیان امن معاہدہ طے پاگیا
واضح رہے کہ مذکورہ معاہدے کا افغانستان کی موجودہ سیکیورٹی کی ابتر صورت حال پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ حزب اسلامی حالیہ چند سالوں سے غیر مؤثر ہے اور انھوں نے آخری بڑا حملہ 2013 میں کیا تھا جس میں 6 امریکیوں سمیت 15 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
دوسری جانب طالبان، جن سے 2011 میں حکومت چھین لی گئی تھی، نے مغربی ممالک کی مدد سے بننے والی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کردیا ہے اور ملک بھر میں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔