نقطہ نظر

وہاڑا: سوات میں فنِ تعمیر کا 18 صدی پرانا شاہکار

بدھ مت دور کے بعد سوات میں ہندو شاہی دور بھی اس وہاڑے پر گزرا جس کی وجہ سے یہ جگہ ہندوؤں کے لیے بھی مقدس مانی جاتی ہے۔

میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ عمارتیں بولتی ہیں۔ مجھے شروع میں یہ جملہ بڑا عجیب سا لگا تھا مگر جب سے آثار قدیمہ میں میری دلچسپی بڑھی، تب سے مجھ پر اس چھوٹے سے جملے میں چھپی حقیقت آشکار ہونے لگی۔

ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے 25 کلومیٹر دور تحصیل بریکوٹ میں ایک ایسی ہی عمارت ہے جو دوسری صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ پورے جنوبی ایشیاء میں اپنی نوعیت کی واحد قدیم ترین عمارت ہے جو تقریباً 1800 سال گزرنے کے بعد آج بھی اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔

ماہرین آثار قدیمہ بریکوٹ کو گندھارا تہذیب کے حوالے سے انتہائی اہم علاقہ مانتے ہیں۔ بریکوٹ کی وادیءِ کنڈاک میں بلو (Balo) نامی گاؤں میں 1800 سال پرانے تاریخی آثار پائے جاتے ہیں۔ شورش سے پہلے یہ آثار ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھے مگر صد افسوس کہ اب یہاں دھول مٹی کے سوا اور کچھ نہیں۔

مقامی پہاڑی سے وہاڑے کی لی جانے والی تصویر — تصویر امجد علی سحاب

وہاڑے کا فرنٹ ویو— تصویر امجد علی سحاب

وہاڑا — تصویر امجد علی سحاب

مقامی لوگوں کے مطابق طالبان کا اثر و رسوخ بڑھنے سے پہلے یہاں بڑی تعداد میں بدھ مت کے پیروکار آتے تھے اور اپنی مذہبی رسوم ادا کر کے واپس چلے جاتے تھے مگر اب یہاں پندرہ بیس دنوں میں ہی کوئی ایک آدھ سیاح دکھائی دیتا ہے اور وہ بھی ملکی یا مقامی ہی ہوتا ہے۔

بلو گاؤں کے آثار میں ایک دو منزلہ عمارت بھی شامل ہے جسے بدھ مت کے پیروکار 'وہاڑا' (Vihara) کے نام سے پکارتے ہیں۔ اونچے مقام پر آباد ہونے کی وجہ سے یہ عمارت دور سے ہی صاف دکھائی دیتی ہے۔

اس تاریخی مقام کو برطانیہ کے ماہرِ آثارِ قدیمہ سر اُورل اسٹائن نے دریافت کیا تھا۔ دریافت کے بعد جلد ہی تقریباً 1938 میں اس کی کھدائی کی گئی۔ مقامِ شکر ہے کہ اب اس وہاڑے کے تحفظ کے بہتر انتظامات کیے گئے ہیں مگر ماضی کی ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ تقریباً 100 سال تک یہ تاریخی مقام مختلف اسمگلرز اور لُٹیروں کے نشانے پر رہا۔ یہاں کھدائیاں کی گئیں اور وہاڑے کے ارد گرد کافی تباہی مچائی گئی۔

اسے گنبد کے اوپر گنبد ہونے کی وجہ سے 'ڈبل ڈوم اسٹرکچر' کہا جاتا ہے۔ یہ وہاڑا ایک بہت بڑی خانقاہ کا چھوٹا سا حصہ ہے جس میں چھوٹے بڑے اسٹوپے بھی تھے، مگر وہ وقت گزرنے کے ساتھ اب معدوم ہوچکے ہیں۔

بدھ مت دور کے بعد سوات میں ہندو شاہی دور بھی اس وہاڑے پر گزرا جس کی وجہ سے یہ جگہ ہندوؤں کے لیے بھی مقدس مانی جاتی ہے۔ پھر اسی مقام پر آخر میں مسلمانوں کا دور بھی گزر چکا ہے۔

مقامی سیاح وہاڑے کی تصویر کشی کر رہے ہیں—تصویر امجد علی سحاب

وہاڑے کا سائیڈ ویو —تصویر امجد علی سحاب

وہاڑے کا بیک ویو — تصویر امجد علی سحاب

تاریخ کے اوراق سے گرد ہٹائی جائے تو معلوم ہوگا کہ کسی زمانے میں یہاں بدھ مت کے پیروکار بڑی تعداد میں رہائش پذیر تھے۔ وہاڑے کے احاطے میں ایک اچھا خاصا اسٹوپا ہوا کرتا تھا، ساتھ ہی عبادت کی کافی جگہیں بھی ہوا کرتی تھیں۔

رہائش پذیر آبادی تو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوگئی مگر یہ اہلِ سوات کی خوش قسمتی ہے کہ تقریباً 1800 سال پرانا وہاڑا اب بھی اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔ اپنے دور میں بدھ مت کے راہب یہاں مستقل طور پر رہائش پذیر تھے۔

اٹالین آرکیالوجیکل مشن نے وہاڑے کی بحالی میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ مختلف وقتوں میں جیسے ہی شام کے سائے گہرے ہوجاتے، تو مختلف اسمگلر اور لوٹ مار کرنے والے یہاں کھدائی کرنے کی خاطر آ دھمکتے۔ مگر اب ایسا نہیں ہے، کیوں کہ اب اس پر نظر رکھنے اور اس کا خیال رکھنے کے لیے مذکورہ ادارے نے ایک چوکیدار مقرر کیا ہے جو اس کی رکھوالی کرتا ہے۔

جس روز ہم وہاڑا دیکھنے گئے وہاں امریکا سے تعلق رکھنے والی شہلا انجم بھی اپنی مقامی دوستوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ شہلا آثارِ قدیمہ میں دلچسپی رکھتی ہیں اور اس حوالے سے مختلف انگریزی اخبارات میں لکھتی بھی رہی ہیں۔ ان کے بقول "چین، انڈونیشیا اور جاپان کے بدھ مت کے پیروکار اب بھی سوات آنا چاہتے ہیں۔ ایک دور میں جاپان والے یہاں بڑی تعداد میں آیا بھی کرتے تھے، لیکن بدقسمتی سے جب حالات خراب ہوگئے تو انہوں نے یہاں آنا بند کر دیا۔"

وہاڑے کے گرد گھومنے والا چھت دار راستہ— تصویر امجد علی سحاب

وہاڑے کے گرد چھت دار راستہ یہاں سے شروع ہوتا ہے — تصویر امجد علی سحاب

چھت دار راستے کے اندر تازہ ہوا اور روشنی کے لئے بنایا گیا سوراخ— تصویر امجد علی سحاب

یہ تاریخی عمارت تحصیل بریکوٹ کے بلو گاؤں میں ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہے۔ اس تک پہنچنے والا راستہ پچاس فی صد پختہ ہے جو گاؤں کی گلیوں میں سے گزرتا ہے۔ باقی ماندہ پچاس فی صد سنگلاخ پہاڑ کا سینہ چیر کر نکالا گیا ہے۔ یوں تو یہاں تک پہنچنے کے لیے عام طور پر فور بائے فور گاڑی استعمال کی جاتی ہے مگر عام گاڑی بھی وہاڑے تک باآسانی پہنچ سکتی ہے۔

ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نیچے گاؤں سے وہاڑے تک ہائیکنگ کی جائے۔ گاؤں سے وہاڑے تک 35 سے 40 منٹ کی دھیمی رفتار سے چلنے کے بعد منزل تک پہنچا جا سکتا ہے اور یہی سفر گاڑی میں 15 سے 20 منٹ میں طے ہوتا ہے۔

وہاں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ وہاڑا کس قدر دیدہ زیب ہے۔ چند سیڑھیاں چڑھ کر وہاڑے کا اندرونی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ وہاڑے میں ایک چھوٹا کمرہ ہے جس کے گرد ایک چھت دار راستہ گھومتا ہے۔ راستہ محراب نما دروازے سے شروع ہوتا ہے اور کمرے کے گرد گھوم کر دوسرے محراب نما راستے پر آکر ختم ہوتا ہے۔

یہ محراب نما وہاڑا اس لحاظ سے انجینئرنگ کا شاہکار ہے کہ سخت گرمی میں بھی اس کے اندر ایسا ماحول ہوتا ہے جس پر کسی ایئر کنڈیشنڈ کمرے کا گمان ہوتا ہے۔ چھت دار راستے میں ہوا کے لیے تین مختلف جگہوں پر ایسے مستطیل شکل کے سوراخ بنائے گئے ہیں جنہیں کھڑکی کے بجائے اگر روشن دان کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔

ان روشن دان نما سوراخوں کا سائز باہر سے اندر آتے وقت بتدریج بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مثلاً باہر سے ایک فٹ نظر آنے والا سوراخ اندر آتے اور ختم ہونے تک ڈیڑھ فٹ کا ہو جاتا ہے۔

دیا روشن رکھنے کے لیے بنائی گئی چھوٹی سی جگہ — تصویر امجد علی سحاب

وہاڑے کے اوپر بنا گنبد— تصویر امجد علی سحاب

وہاڑے کے احاطے میں تعمیر شدہ ایک ویٹیو اسٹوپا— تصویر امجد علی سحاب

وہاڑا — تصویر امجد علی سحاب

چھت دار راستے کی طرح وہاڑے کے کمرے میں بھی تازہ ہوا اندر لانے کے لیے ایسے ہی تین مستطیل شکل کے سوراخ بنائے گئے ہیں۔ مؤخر الذکر سوراخ اول الذکر کے بالکل سامنے بنائے گئے ہیں۔ وہاڑا چوں کہ اونچائی پر واقع ہے، اس لیے وہاں ہر وقت تازہ ہوا چلتی رہتی ہے۔

ہوا سوراخ کے اندر اتنے زور سے داخل ہوتی ہے کہ چادر و دوپٹہ آسانی سے اڑ سکتا ہے۔ وہاڑے کے اوپر تعمیر شدہ گنبد میں بھی ہوا کے لیے ایسے ہی سوراخ بنائے گئے ہیں۔

پرانے زمانے میں جب بجلی نہیں ہوا کرتی تھی، تو لوگ مشعل جلا کر اندھیروں کو بھگایا کرتے تھے۔ اسی طرح وہاڑے کے احاطے کو روشن رکھنے کے لیے مشعل جلائی جاتی ہوں گی، مگر اندر اسے دیا جلا کر روشن رکھا جاتا تھا۔

وہاڑے کے اندر دیا رکھنے کے لیے دیوار کے اندر ایک مثلث شکل کی چھوٹی سی جگہ بنائی گئی ہے جسے آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے اندر اگر ایک روشن دیا رکھا جائے تو وہاڑے کے اندر آنے والی ٹھنڈی اور تیز ہوا کے باوجود دیا جلتا رہتا ہے۔


امجد علی سحاب فری لانس صحافی ہیں اور تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

امجد علی سحاب

امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔