پاکستان

پاکستانی انٹرنیٹ صارفین حکومتی سنسر شپ کی زد میں

اس فہرست میں پاکستان انٹرنیٹ پابندیوں کے حوالے سے مسلسل تیسری بار 10 واں بدترین ملک قرار دیا گیا۔

دنیا کے دوتہائی انٹرنیٹ صارفین حکومتی سنسر شپ کی زد میں رہتے ہیں اور پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں انٹرنیٹ پر بہت زیادہ پابندیاں ہیں۔

یہ بات فریڈم ہاﺅس نامی یہ تھنک ٹینک کی سالانہ رپورٹ میں سامنے آئی جس میں بتایا گیا کہ مسلسل چھٹے برس بھی دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی آزادی میں کمی آئی ہے جبکہ حکومتوں کی جانب سے سوشل میڈیا سروز اور میسجنگ ایپس کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

اس رپورٹ میں ان 65 ممالک میں انٹرنیٹ کی آزادی کا جائزہ لیا گیا جہاں 88 فیصد انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد بستے ہیں اور اس فہرست میں پاکستان پابندیوں کے حوالے سے مسلسل تیسری بار 10 واں بدترین ملک قرار دیا گیا۔

رپورٹ میں پاکستان کو انٹرنیٹ پر پابندیوں کے حوالے سے مجموعی طور پر 100 میں سے 69 نمبر دیئے گئے حالانکہ نمبرون پر موجود ملک ایسٹونیا کا اسکور 6 اور بدترین قرار دیئے جانے والے چین کا 88 رہا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے سائبر کرائم بل کی منظوری دی جس میں موجود شقوں میں انٹرنیٹ پر 'قومی مفاد' پر سنسر شپ، نگرانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قانونی قرار دیا گیا ہے۔

فریڈم ہاﺅس کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان میں 2012 کے بعد 2016 میں یوٹیوب کو کھول دیا گیا مگر آن لائن تقاریر پر سخت سزائیں بھی دی گئی ہیں جس کی وجہ سائبر کرائم بل 2015 کی منظوری ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس بل کے تحت اظہار رائے کی آزادی کو دبایا گیا جس پر پاکستانی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں سمیت اقوام متحدہ کے اظہار رائے کی آزادی کے خصوصی نمائندے نے بھی شدید تنقید کی ۔

رپورٹ میں اس امر پر تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں مختلف مقدمات پر آن لائن 'نفرت انگیز' یا 'فرقہ وارانہ' مواد شیئر کرنے پر لوگوں کو سخت سزائیں سنائی گئیں تاہم مثبت پہلوﺅں میں یوٹیوب پر پابندی ختم ہوئی، جبکہ بلیک بیری کی انکرپٹڈ پیغامات کی سروسز بھی برقرار رہیں جسے حکومت نے بند کرنے کا انتباہ جاری کیا تھا۔

اس رپورٹ میں ممالک کی درجہ بندی تین شعبوں کی بنیاد کی گئی جن میں انٹرنیٹ تک رسائی پر پابندیاں، مواد کو محدود کرنا اور صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی شامل ہیں۔

رسائی میں رکاوٹ

اس شعبے میں پاکستان کو 25 میں سے 18 نمبر دیتے ہوئے کہا گیا کہ ملک میں ناکافی ذرائع اور انفراسٹرکچر کے باعث انٹرنیٹ تک رسائی محدود ہے، تاہم حالیہ برسوں میں تھری جی اور فور جی سروسز کی بدولت موبائل انٹرنیٹ رسائی بڑھی ہے مگر ان سروسز کو بھی سیاسی یا مذہبی بنیادوں پر اکثر بند کردیا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکشن یونین نے 2015 میں بتایا تھا کہ صرف 18 فیصد پاکستانی انٹرنیٹ استعمال کررہے ہیں تاہم موبائل انٹرنیٹ کی بدولت اس میں اضافے کا امکان ہے مگر اب بھی آبادی کا بڑا حصہ اس سے محروم ہے۔

اسی طرح براڈ بینڈ سروسز شہری علاقوں میں تو ہے مگر دیہی اور دور دراز کے علاقے اس سے محروم ہیں اور وہاں کے رہنے والوں کو سلو ڈائل اپ کنکشن پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو کہ موبائل انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی ابتدائی قسم ہے، جبکہ پاکستانی ٹیلی کمیونیکشن پاکستان انٹرنیٹ ایکسچینج کو کنٹرول کرتی ہے اور کسی بھی وقت سروسز کو بند کیا جاسکتا ہے، جس کے بارے یں مقامی اور بین الاقوامی گروپس اور ماہرین تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔

مواد کو محدود کرنا

اس شعبے میں پاکستان کو 35 میں سے 20 نمبر دیئے گئے، جس کی وجہ سائبر کرائمز بل کے ذریعے پی ٹی اے کو انٹرنیٹ مواد کے انتظام سنبھالنے کا اختیار دینا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس بل کی شق 34 کے تحت پی ٹی اے کو اختیار حاصل ہے کہ وہ وہ کسی بھی انفارمیشن تک رسائی کو بلاک یا اسے ریمو کرسکتی ہے، 'جس کے لیے اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی، ملکی سالمیت، سیکیورٹی یا دفاع، عوامی امن و امان، توین عدالت یا ایسے ہی دیگر عوامل کو بنیاد بنایا جاسکے گا'۔

رپورٹ میں سیٹزن لیب کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ سنسر شپ کے حوالے سے شفافیت اور جوابدہی کی بھی کمی ہے، جہاں اکثر سوشل میڈیا اور کمیونیکشن ایپس کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جہاں تک مواد ہٹانے کی بات ہے کہ حکومت کی جانب سے اکثر ویب سائٹس سے اس کی درخواستیں کی جاتی ہیں، مثال کے طور پر 2015 کی دوسری ششماہی کے دوران فیس بک نے پاکستان کی درخواست پر 6 پوسٹوں پر پابندی عائد کی تھی، تاہم حکومتی حلقوں کی جانب سے اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزی

اس شعبے میں پاکستان کو 40 میں سے 31 نمبر دیئے گئے جس کی وجہ آن لائن سرگرمیوں پر مقدمات چلانے کے لیے سائبر کرائم بلز سمیت دیگر قوانین کو استعمال کرنا ہے۔