فوٹو/بشکریہ نوید صدیقی
پیپر بُکس میں صحافی اسد کھرل کی کتاب کو بھی حصہ بنایا گیا ہے جس میں انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے حوالے سے کئی انکشافات کیے تھے۔
دستاویز کے مطابق شریف خاندان نے 1988 سے 1991 تک 5 کروڑ 60 لاکھ روپے ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک منتقل کیے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شریف خاندان نے 14 کروڑ 50 لاکھ روپے کی منی لانڈرنگ کی جبکہ نوازشریف نے اس دوران صرف 897 روپے انکم ٹیکس اداکیا۔
دستاویز کے مطابق بیرون ملک بھجوائی گئی رقم کا ٹیکس گوشواروں میں ذکر نہیں کیا گیا، نوازشریف کے کاروباری شراکت دار خالد سراج نے منی لانڈرنگ سے پردہ اٹھایا۔
جمع کرائے جانے والے شواہد میں شریف خاندان کے قرض معاف کرانے سے متعلق دستاویزات بھی منسلک ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ شریف خاندان کے ذمے 6 ارب 14 کروڑ 60 لاکھ روپے کے بینک قرضہ جات ہیں۔
دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا کہ جب نوازشریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو اس دور میں شریف خاندان کی انڈسٹریز نے تیزی سے ترقی کی۔
وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل تبدیل
سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کیس میں وزیراعظم کے بچوں نے وکیل تبدیل کرنے کی درخواست دے دی۔
وزیراعظم کے بچوں، مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز کی جانب سے پاناما لیکس کیس میں سینئر قانون دان بیرسٹر اکرم شیخ کی خدمات حاصل کرنے کی درخواست دی گئی اور یہ درخواست ایڈووکیٹ آن ریکارڈ رفاقت حسین کی جانب سے جمع کرائی گئی۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ اس کیس میں وزیر اعظم اور ان کے بچوں کا دفاع کررہے تھے۔
سلمان اسلم بٹ وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل برقرار رہیں گے۔
علاوہ ازیں عمران خان نے پاناما لیکس کے حوالے سے اپنے خلاف دائر مقدمے کے لیے وکالت نامہ بھی سپریم کورٹ میں جمع کرادیا جس میں انہوں نے حامد خان کو اپنا وکیل مقرر کیا۔
عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف سابق رکن اسمبلی حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے جس میں انہوں نے عمران خان اور جہانگیر ترین کا نام پاناما لیکس میں آنے پر ان کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
حنیف عباسی کی درخواست کی سماعت بھی 15 نومبر کو ہوگی۔
شیخ رشید کے شواہد
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق مزید تفصیلات اورشواہد جمع کرادئیے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شیخ رشید نے بتایا کہ نواز شریف کی 2001ء سے قائم کمپنیوں کی تفصیلات جمع کرائی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی ملاقاتوں کاپہلے سے علم تھا، ایڈووکیٹ اکرم شیخ کے بیٹے کو لیگل ایڈوائزر مقرر کیاگیا ہے۔
پچھلی سماعتیں
یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کا معاملہ 20 اکتوبر 2016 کو اٹھایا گیا تھا اور عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے تھے اور سماعت یکم نومبر تک کے لیے ملتوی کردی تھی۔
28 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔لارجر بینچ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔
یکم نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پر تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 نومبر تک ملتوی کردی تھی۔
3 نومبر کی سماعت میں وزیر اعظم کی جانب سے ان کے وکیل نے جواب داخل کرایا جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بھی اپنے ٹی او آرز جمع کرادیے تھے۔
عدالت نے وزیر اعظم کے بچوں کی جانب سے جواب داخل نہ کرائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ کی سرزنش کی تھی جبکہ جواب داخل کرنے کے لیے 7 نومبر تک کی مہلت دی تھی۔
بعد ازاں تحریک انصاف نے کمیشن کے حوالے سے سماعت کے بعد سپریم کورٹ میں اپنے ٹی او آرز جمع کروائے جبکہ وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے بھی اپنا جواب اور ٹی او آرز عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیا تھا۔
7 نومبر کی سماعت میں وزیراعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم صفدر نے جواب داخل کرائے تھے۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے تمام فریقین کو ہدایت کی تھی کہ وہ 15 نومبر تک دستاویزی شواہد پیش کریں جبکہ کیس کی سماعت بھی 15 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔