پیپلز پارٹی کے رہنما جہانگیر بدر انتقال کرگئے
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر بدر لاہور میں انتقال کر گئے، مرحوم دل کی تکلیف کے باعث دو دن سے ہسپتال میں زیر علاج تھے۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق جہانگیر بدر کو عارضہ قلب کے باعث ڈی ایچ اے لاہور کے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل کرایا گیا تھا۔
خاندانی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی رہنما گردوں کے مرض میں بھی مبتلا تھے، تاہم ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔
تعزیتی پیغامات
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور صدر مملکت ممنون حسین نے جہانگیر بدر کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ جہانگیر بدر عظیم سیاسی اثاثہ تھے جو جمہوری اقدار پر یقین رکھتے تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جہانگیر بدر کے انتقال کو بڑا نقصان قرار دیا، انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ یہ خبر دھچکے سے کم نہیں۔
سابق صدر آصف زرداری سمیت سیاسی وسماجی رہنماؤں نے بھی جہانگیر بدر کے انتقال پر اظہار افسوس کیا۔
پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے جہانگیر بدر کے انتقال کو جمہوریت کا نقصان قراردیا۔
اس کے علاوہ امیرجماعت اسلامی سراج الحق اور لیاقت بلوچ، ایم کیو ایم لندن کے رہنما ندیم نصرت، پاک سرزمین پارٹی کے قائد مصطفی کمال اور سابق گورنر سندھ عشرت العباد نے بھی جہانگیر بدر کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پسماندگان سے تعزیت کی۔
جہانگیر بدر کون تھے؟
جہانگیر بدر 25 اکتوبر 1944 کو لاہور میں پیدا ہوئے، مرحوم 4 سے زائد دہایوں سے پیپلز پارٹی کا حصہ تھے، انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز بانی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔
مرحوم کا شمار بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا جبکہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جنرل سیکریٹری بھی رہے۔
مرحوم 1988 میں رکن قومی اسمبلی جبکہ 1994 اور 2009 میں دوبار سینیٹر منتخب ہوئے جبکہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں طویل عرصے تک جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
جہانگیر بدر نے زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تھا، وہ لاہور میں یونیورسٹی کے ایام میں طلبہ یونین کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔
بطور نوجوان پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو سے ملے اور پھر پی پی پی میں شامل ہو کر اُن کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ وہ پی پی پی میں شمولیت کرنے والے پہلے طلبہ گروپ میں شامل تھے۔
ایوب خان اور یحیٰی خان کی آمریت کے دنوں میں انہوں نے کئی بار گرفتاریاں پیش کیں۔
سیاسی مصروفیات اور بدستور قید و بند کے باوجود، انہوں نے ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔
سخت جیالے تصور ہونے والے بدر نے پارٹی کے تنظیمی عہدوں پر بھی مختلف حیثیت میں خدمات سرانجام دی ہیں۔
وہ مختلف انتخابات میں رکن قومی اسمبلی اور سینیٹر بھی منتخب ہوئے جبکہ بینظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے طور پر کابینہ کا حصہ بھی رہے۔
بطور سینیٹر جہانگیر بدر نے ایوانِ بالا کی مختلف قائمہ کمیٹیوں کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔
جہانگیر بدر کا نام این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل رہا اور جب سپریم کورٹ نے این آر او کو کالعدم قرار دیا تو احتساب عدالت نے انہیں بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔
ان کا نام آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے سربراہ توقیرصادق کیس میں بھی لیا گیا۔
اوگرا کے سابق چیئرمین کو قومی خزانے کو (مبینہ طور پر) 83 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔