پاکستان

پنچایت کے حکم پر ریپ کے بعد خاتون کی خود کشی

واقعہ ضلع گجرات کے گاؤں ڈھلو غربی میں پیش آیا اور متاثرہ خاتون دو ہفتے قبل لاہو رکے میو ہسپتال میں دم توڑ گئی تھی۔

گجرات: پولیس نے پنچایت کے حکم پر ریپ کے بعد شادی شدہ خاتون کی خود کشی کی تحقیقات شروع کردیں اور اس سلسلے میں چند افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔

یہ واقعہ ضلع گجرات کے گاؤں ڈھلو غربی میں چند ماہ قبل پیش آیا تھا اور مذکورہ خاتون دو ہفتے قبل لاہو رکے میو ہسپتال میں دم توڑ گئی تھی۔

ذرائع کے مطابق خاتون نے جب خود کو آگ لگایا اس وقت وہ 5 ماہ کی حاملہ بھی تھی اور اس نے 18 اکتوبر کو آزاد جموں و کشمیر کے ضلع بھمبر میں اپنے سسرالیوں کے گھر پر خود کو آگ لگالی تھی۔

اپنی موت سے چند روز قبل میو ہسپتال میں پولیس کو دیے جانے والے بیان میں خاتون نے بتایا تھا کہ وہ ریپ کے بعد حاملہ ہوگئی جس کے بعد اس نے خود کو آگ لگالی کیوں کہ وہ اپنے شوہر کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی جو حال ہی میں بیرون ملک سے وطن واپس آیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مظفر گڑھ: پنچایت کے حکم پر گینگ ریپ؟

ذرائع کا کہنا ہے چند ماہ قبل متوفیہ کا والد گاؤں ڈھلو غربی میں ایک کمسن لڑکی کے ساتھ دست درازی کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ اس وقت متوفیہ اپنے ماں باپ کے گھر پر ہی رہتی تھی کیوں کہ اس کا شوہر ملازمت کی غرض سے بیرون ملک تھا۔

تاہم جب پنچایت کے حکم پر اس کا ریپ کردیا گیا تو گھر والوں نے اسے واپس اس کے سسرال بھیج دیا تھا جہاں اس نے اقدام خود کشی کیا۔

پولیس نے 30 مارچ کو خاتون کے والد کو کمسن لڑکی سے زیادتی کی کوشش کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا لیکن کچھ عرصے بعد اسے رہا کردیا گیا اور معاملہ پنچائیت کے سامنے لایا گیا۔

پنچایت نے فیصلہ کیا کہ کمسن لڑکی کا باپ سزا کے طور پر اس شخص کی بیٹی کا ریپ کرے گا جس کے باپ نے کمسن بچی سے بدسلوکی کی کوشش کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جب خاتون کو میو ہسپتال لاہور لایا گیا تو اس کی حالت انتہائی تشویش ناک تھی اور موت سے قبل اس نے ہسپتال میں ایک مردہ بچے کو جنم بھی دیا تھا۔

مزید پڑھیں: کو ایجوکیشن اسکولوں میں لڑکیوں کو نہ بھیجیں۔ پنچایت کی ممانعت

گجرات کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سہیل ظفر چٹھا نے ڈان کو بتایا کہ بھمبیر کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے 7 نومبر کو گجرات پولیس کو خط بھیجا اور اس بات کی اطلاع دی کہ ایک خاتون نے 18 اکتوبر کو بھمبیر میں اپنے سسرالیوں کے گھر میں خود کشی کرنے کی کوشش جو بعد میں لاہور کے ہسپتال میں چل بسی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ 10 نومبر کو متوفیہ اور کمسن لڑکی کے باپ سمیت پنچائیت کے بعض ارکان کو بھی حراست میں لے لیا گیا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں نیا موڑ اس وقت آیا جب متوفیہ کے والدین، کیس کے مشتبہ افراد اور گاؤں کے بعض افراد نے بتایا کہ کوئی پنچایت نہیں ہوئی اور نہ ہی کمسن بچی کے باپ نے ریپ کیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اب پولیس مردہ پیدا ہونے والے اس بچے کی لاش کو تلاش کررہی ہے جسے شائد یا تو لاہور میں کسی مقام پر دفن کردیا گیا یا پھر قبل از وقت پیدائش کے بعد کہیں پھینک دیا گیا ہوگا۔

بچے کو تلاش کرنے کا مقصد اس کا ڈی این اے حاصل کرنا اور یہ پتہ لگانا ہے کہ آیا اس کا باپ وہی شخص ہے جس نے مبینہ طور پر ریپ کیا یا کوئی اور ہے۔

ذرائع کہتے ہیں کہ یہ بات واضح نہیں کہ کس نے میو ہسپتال سے بچے کی لاش کو اٹھایا جبکہ متوفیہ کے شوہر نے ہسپتال میں رکھے ایک کوڑے دان سے ملنے والا کپڑے کا ایک ٹکڑا فراہم کیا ہے جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ قبل از وقت پیدائش کے بعد بچے کو اس کپڑے میں لپیٹ کر رکھا گیا تھا۔

یہ خبر 13 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی