مردوں کے حقوق کے معاملے کو اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کرلیا گیا—۔ صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی
ان کا کہنا تھا 'ہم خواتین کے حقوق کے حامی ہیں لیکن میرٹ پر مردوں کو بھی حقوق دیئے جانے چاہئیں۔'
قاسمی صاحب نے کہا کہ وہ چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کے شکرگزار ہیں جنھوں نے ان کی درخواست کو اہمیت دی اور اسے کونسل کے آئندہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا۔
واضح رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس رواں ماہ 15، 16 اور 17 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے جارہا ہے۔
قاسمی صاحب کا کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران اس حوالے سے بحث ہوگی اور دلائل دیئے جائیں گے، انھوں نے بتایا، 'اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ شامل ہیں، جو اجلاس کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں بات کریں گے تو وہاں بھی ایسے کیسز سامنے آئیں گے۔'
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے مردوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا فیصلہ عوام کی ضرورت اور ڈیمانڈ کے پیش نظر کیا اور اس سلسلے میں انھیں کسی این جی او، فرد، ادارے یا تنظیم کی مدد حاصل نہیں۔
آخر میں قاسمی صاحب نے اس امید کا اظہار کیا کہ مردوں کے حقوق کے حوالے سے بھی بل منظور کیا جائے گا۔
صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ فیصل آباد کی جامعہ مسجد کے خطیب، پاکستان علماء کونسل کے مرکزی سیکریٹری جنرل، وفاق المساجد پاکستان کے سیکریٹری جنرل اور تحفظ مدارس دینیہ کے صدر بھی ہیں۔
مزید جانیں: تحفظ خواتین ایکٹ کیخلاف وفاقی شرعی عدالت سے رجوع
یاد رہے کہ رواں برس فروری میں پنجاب اسمبلی نے تحفظ خواتین بل متفقہ طور پر منظور کیا تھا، جس کے تحت گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی و نفسیاتی تشدد، بدکلامی اور سائبر کرائمز قابل گرفت ہوں گے۔
بل کے تحت تشدد کا شکار خاتون کو گھر سے بے دخل نہیں کیا جا سکے گا، جبکہ عدالتی حکم پر مرد، تشدد کی شکار خاتون کو تمام اخراجات فراہم کرنے کا پابند ہو گا اور نان نفقہ ادا کرنے سے انکار پر عدالت تشدد کے مرتکب مرد کی تنخواہ سے کٹوتی کرکے ادا کر سکے گی۔
بل میں رکھی گئی ایک دلچسپ شق کے مطابق خواتین پر تشدد کرنے والے مرد کو 2 دن کے لیے گھر سے نکالا جا سکے گا۔
دوسری جانب پنجاب بھر میں متاثرہ خواتین کے لیے شیلٹر ہومز بنائے جائیں گے، جبکہ شیلٹر ہومز میں متاثرہ خواتین اور ان کے بچوں کو بورڈنگ اور لاجنگ کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی، جبکہ مصالحت کے لیے بھی سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔
یہاں پڑھیں: تحفظ نسواں قانون غیر اسلامی قرار
تاہم اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کو غیر اسلامی اور خلاف آئین قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسمبلیوں کو اس قسم کی قانون سازی سے قبل کونسل سے مشاورت کرنی چاہیئے۔
کونسل کی جانب سے اس حوالے سے پنجاب حکومت کو خط بھی لکھا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ بہت سے گھریلو معاملات میں شوہر کی رائے فیصلہ کن ہوتی ہے، شوہر سے اختلاف رائے کی صورت میں بیوی کو سرکاری اداروں سے اپیل کا قانون خاندانی نظام کی روح کے خلاف ہے۔
بعدازاں رواں برس مئی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک اجلاس میں تحفظ حقوق نسواں کا مجوزہ بل پیش کیا گیا تھا جس کے تحت شوہر کو بیوی پر معمولی تشدد کی اجازت ہوگی، جسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔