نقطہ نظر

پاکستانی ٹی وی اسکرینز پر گھٹن زدہ ڈراموں کا راج

کہیں شادی کے دوران ہلہ گلہ کرنے پر گھر کی چھت گر رہی ہے تو کہیں بغیر پردے کی لڑکیوں کو نشانے پر رکھا جاتا ہے۔

ادب اور ادیب معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں، جن کا ہاتھ ہمیشہ اس کی نبض پر رہتا ہے اور معاشرتی بگاڑ کی نشاندہی اپنا فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں معاشرے نے جو بے ہنگم متشدد صورت اختیار کرلی ہے، اس کی تشخیص قحط الرجال کے باعث انتہائی محدود پیمانے پر ہو رہی ہے۔ اس صورتحال میں لگتا یوں ہے کہ سماجی مسائل کی عکاسی اور ان کا حل پیش کرنے کی تمام تر ذمہ داری اپنے طور پر خواتین اردو ڈائجسٹ رائٹرز نے خود ہی اٹھالی ہے۔

اب وہ اس میں کتنی کامیاب ہوئیں، ہم اس کی گہرائی میں نہیں جائیں گے بلکہ ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ ان افسانہ نگاروں کے موضوعات اور کہانیاں معاشرے پر کیا اثرات مرتب کر رہی ہیں یا کر سکتی ہیں۔

ان رائٹرز کے تحریر کردہ موجودہ دور کے مشہور ناولز (جن کی ڈرامائی تشکیل بھی ہو چکی ہے اور کئی ابھی اس مرحلے میں ہیں) کا مطالعہ کریں یا ہر ماہ ڈائجسٹ میں چھپنے والی کہانیوں کا، آپ کو ان سب میں ایک چیز مشترک نظر آئے گی اور وہ ہے جزا اور سزا، دنیا اور آخرت کی کامیابی یا ناکامی کا انتہائی حد تک جا کر موازنہ کرنا۔

کم و بیش تمام کہانیوں میں ہیروئن یا خاتون مرکزی کردار متقی، پرہیزگار نظر آئے گا، جس کے مقابل بالواسطہ یا بلاواسطہ انتہائی درجے کا بگڑا ہوا انسان ہے جس کی آخرت پر ناکامی کا ٹھپہ بلا شک و شبہ چسپاں ہے۔

اب اس بد قماش اور بد کردار انسان کی اصلاح اور اخلاقی درستگی کا سامان رائٹرز کچھ اس طرح ہیروئن کے ہاتھ میں پکڑا دیتی ہیں کہ بجائے معاشرتی سدھار کے، پہلے سے ہی بوجھل کہانی بے جا مذہبی حوالوں اور عبرتناک موت یا بیماری دکھانے کی وجہ سے طبعیت پر گراں گزرنے لگتی ہے۔

اگر بہت الگ پلاٹ ترتیب دینا ہو تو یہ ہی کام ہیرو کے ہاتھوں ہیروئن کے لیے انجام پاتا ہے یا کہانی کے سیکنڈ لیڈ کردار کے لیے پہلے تمام برائیاں اور اس کے بعد دنیا میں ہی دوزخ کا سامان یہ رائٹرز تیار کروا جاتی ہیں۔

نظریات اور اخلاق کی اتنی بلندی اور پستی یا ان کی بنیاد پر ایک دوسرے پر دائرہ حیات تنگ کرنا عام ہے۔ کسی کو اسلام سے دور دکھانا ہو تو تمام جملہ برائیاں اس کردار میں ڈال دیں اور کردار کی مضبوطی دکھانا مقصود ہو تو اسے اسلامی کتب، درس سے گھرا ہوا دکھا دیا جائے جیسے اکثر مشہور زمانہ ناولز میں کیا گیا۔

اس بات سے قطع نظر کہ نماز و روزہ ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے، اور دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو عبادات کی پابندی نہیں کرتے، مگر معاشرے کے کارآمد اور دردِ دل رکھنے والے شہری ہیں۔

تو کیا کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے جو مذہبی رجحان کو بیچ میں لائے بغیر اچھائی برائی کا پیمانہ بن سکے اور جسے ہر فرد بلا تفریق مذہب و عقیدہ سیکھ سکے؟

اب چوں کہ یہ خواتین لکھاری ڈرامہ رائٹرز بھی بن گئیں ہیں، لہٰذا فلاح کی یہ ہی تکرار آپ شام 7 بجے سے لے کر رات 11 بجے تک ہر ڈرامے میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ’میں عبدالقادر ہوں‘ سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ شہرِ ذات، شناخت، ایک پل، میرے جیون ساتھی اور گلِ رعنا سے ہوتا ہوا تاحال جاری ہے۔

حد تو یہ ہے کہ ضیاالحق کی اسلامائزیشن کے دوران بھی ایسے رجعت پسندانہ ڈرامے نہیں پیش کیے جاتے تھے جو اب دکھائے جا رہے ہیں۔ اس سخت ترین گھٹن زدہ دورِ حکومت میں بھی سرکاری ٹی وی سے ایسے ڈرامے نشر کیے جاتے تھے جو کسی کے عقائد، کسی کے مذہبی رجحانات، اور کسی کے لیے جزا و سزا کا فیصلہ کیے بغیر معاشرتی مسائل کو اتنے پراثر انداز میں پیش کرتے تھے، کہ آج بھی انہیں دیکھنا وقت کا ایک اچھا استعمال ثابت ہوتا ہے۔

مگر آج کل ڈائجسٹ کی کہانیوں پر بننے والے ڈراموں میں کہیں شادی کے دوران ہلہ گلہ کرنے پر گھر کی چھت گر رہی ہے تو کہیں بغیر پردے کی لڑکیوں کو نشانے پر رکھا جاتا ہے۔ کسی لکھنے والی کے لیے داڑھی اور ٹوپی ہی کردار کی بلندی کا معیار ہے تو کوئی آرٹ اور آرٹسٹ کو غیر اسلامی کہہ کر اپنے اسکرپٹ کے ذریعے اس کی بربادی پر مصر ہے۔

کہیں ماڈلنگ زد قلم میں آ گئی اور کسی نے جنسی زیادتی کے شکار کی نفسیات کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ کچھ نہ ملا تو طلاق کے مسائل اور دوسری شادی کی فقہی بحث چھیڑ دی۔ کہانی کچھ بھی ہو، اختتام تک کسی نہ کسی طرح مذہبی مسائل ضرور زبردستی ڈالے جاتے ہیں جو ڈرامے کو فن سے نکال کر گنجلک موضوعات اور بیانیے کا مجموعہ بنا دیتے ہیں۔

اخلاقی اصلاح کے اس پہلو کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ’خدا سے لو لگانے میں ہی دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے‘۔ بالکل درست! لیکن کچھ معاشرتی ذمہ داریاں انسان پر اس وقت عائد ہو جاتی ہیں جب اس کا فن، سوچ اور قلم ہر گھر میں پہنچ رکھتا ہو۔

پاکستان کا ہر ذی شعور اور ذی عقل ادراک رکھتا ہے کہ شدت پسندی ہمارے گھروں کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ آج آپ صرف مردوں کو شدت پسند یا دہشت گرد نہیں کہہ سکتے بلکہ اس وقت ان مردوں کی سہولت کار عورتیں بھی ایسی سرگرمیوں میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔

ایسے میں گھر بیٹھی سادہ خواتین کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ پیغام دینا کہ اپنے مذہبی جذبات اور لگاؤ کو دوسروں پر کچھ یوں تھوپنا کہ اس میں خود نمائی اور انتہا کا عنصر واضح ہو، نہ صرف جائز بلکہ فرضِ عین بن گیا ہے۔

ایسی روش کے تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں۔ ڈراموں میں تو پھر بھی کچھ حد رکھی جاتی ہے لیکن ڈائجسٹ میں چھپنے والی کہانیاں قاری کے مذہبی جذبات ابھارنے کا پورا اہتمام رکھتی ہیں۔

زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اکثر جانتے بوجھتے غیر مسلموں کی اخلاقیات یا طرزِ معاشرت کو نشانہ بنا کر آخر میں ان کا مسلمان ہونا دکھایا جاتا ہے۔ اس حساس موضوع کو جس بد احتیاطی اور سنگ دلی سے استعمال کیا جا رہا ہے وہ قابل مذمت ہے۔

سمجھ نہیں آتا کہ کیوں کسی مسیحی یا ہندو کردار کو شراب و شباب میں ڈوبا دکھایا جاتا ہے، پھر ایک مسلمان کردار کے زیر اثر آ کر اسے اپنے مذہب اور عقائد سے بیزار دکھایا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے۔ آپ پچھلے کچھ برسوں کے ڈائجسٹ یا ناول اٹھا لیجیے، ہر دوسری کہانی اسی موضوع کے گرد گھومتی نظر آئے گی۔

ہم ہر روز بین المذاہب ہم آہنگی اور برداشت کی بات کرتے ہیں لیکن تقریباً ہر روز اور ہر مہینے گھروں تک پہنچنے والی اس غیر ضروری تبلیغ کو روکنے کے لیے ہم کیا کررہے ہیں۔ کیا یہ غیر مسلموں کے خلاف اکسانے کے زمرے میں نہیں آتا؟

کیا یہ ضروری ہے کہ ہمارے ارد گرد کوئی غیرمسلم ہے تو ہم لازماً اس کے اور اپنے عقائد پر بحث کریں اور وقتاً فوقتاً اپنے نظریات اور عقیدے کو اس پر لاگو کرنے کی بھونڈی کوشش کریں۔ اردو رائٹرز تو اپنے تخلیق کردہ کرداروں کے ذریعے کم از کم یہ ہی سکھا رہی ہیں۔

اگر ان کے افسانوں پر ایک فیصد بھی یقین کرلیا جائے تو سارے غیر مسلم مسلمان ہوتے نظر آنے لگیں اور ہندو لڑکیاں قبول اسلام کا شرف حاصل کرچکی ہوں جبکہ ’بھٹکے ہوئے مسلمان‘ لڑکے داڑھی اور لڑکیاں حجاب لے کر ہمہ وقت قرانی حوالوں کا ورد کرتے نظر آئیں۔

ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے پاکستان میں عقیدے اور مذہبی نظریات پر مشتمل دہشت گردی اور شدت پسندی سے ریاست کی جنگ جاری ہے۔ ایسے میں اپنی تحریروں و ڈراموں کے ذریعے ذاتی مذہبی معاملات کو چھیڑنے کا درس دینا اسلام کی خدمت نہیں ہے بلکہ اس طرح آپ مزید مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہیں۔

جہاں افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ میانہ روی اور برداشت کو فروغ دیں وہیں چیںلز کے ڈرامہ ہیڈ اور ڈائجسٹس کے مدیران کو بھی اسکرپٹ اور افسانہ پاس کرنے سے پہلے اس کے اثرات پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

ملیحہ خادم

ملیحہ خادم نے ماسٹرس کیا ہے۔ انہیں مختلف موضوعات پر مبنی کتابیں پڑھنا پسند ہے، اس کے ساتھ حالاتِ حاضرہ اور سماجی و سیاسی موضوعات پر بلاگز لکھنے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔