’مسلمان ممالک ایچ آئی وی کے پھیلاؤ سے انکاری‘
کراچی: ماہر امراضِ اطفال اور ایچ آئی وی ایڈز وائرس کی تحقیق میں دلچسپی رکھنے والے ڈاکٹر اختر حسین نے مسلمان ممالک میں ایچ آئی وی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ممالک اس مہلک مرض کے پھیلاؤ سے انکاری ہیں۔
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اختر حسین ان دنوں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کی 32 ویں میڈیکل کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی میں موجود ہیں۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اختر حسین کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں موجود ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی سب سے زیادہ تعداد جنوبی افریقہ میں موجود ہے اور متاثرہ افراد کی تعداد اندازاً 5.6 ملین کے قریب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان متاثرین میں سے 40 سے 42 فیصد کیسز میں یہ مرض ماں سے بچے میں منتقل ہوا لیکن جنوبی افریقہ میں اس تعداد کو صفر تک لے جانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں اور اب وائرس کی ماں سے پیدا ہونے والے بچے میں منتقلی کی شرح کو 0.8 فیصد تک کم کیا جاچکا ہے۔
25 سال سے جنوبی افریقہ میں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے حوالے سے سرگرم ڈاکٹر اختر کا کہنا تھا کہ چند ماہ قبل جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں ایچ آئی وی اور ایڈز پر منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں مختلف مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہر نمائندگان کی جانب سے اس مرض سے متعلق فراہم کی گئی معلومات حیران کن ہیں۔
ڈاکٹر اختر نے بتایا کہ ’ماہرین کی فراہم کردہ معلومات میں سب سے اہم اس بات کا انکشاف تھا کہ مسلمان ممالک میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، بالخصوص شام اور ترکی کی سرحد پر واقع مہاجرین کے کیمپوں میں، اس کے علاوہ ترکی، مصر، تیونس، لبنان، سعودی عرب، پاکستان، افغانستان اور صومالیہ میں بھی ایچ آئی وی کے کیسز میں اضافہ ہوتا جارہا ہے‘۔
ڈاکٹر اختر حسین کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر ممالک ایسے ہیں جہاں ایک دہائی قبل ایچ آئی وی کا نام و نشان تک موجود نہیں تھا، تاہم اب اس انفیکشن کے متعدد کیسز سامنے آنے لگے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں فراہم کیے گئے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ان ممالک میں اس انفیکشن کی شرح 3 سے 10 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران: ایڈز کی جنسی طور پر منتقلی میں اضافہ
اس مہلک مرض میں اضافے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر اختر کا کہنا تھا کہ ’مسلم ممالک اس مرض کے بڑھتے ہوئے واقعات سے انکار کرتے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اس بیماری کو سیکس ورکرز اور خواجہ سرا کمیونٹی تک محدود سمجھتے ہیں جبکہ اصل میں اس مرض کا کسی مذہب، نسل اور سماجی حیثیت سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ انفیکشن کسی کو بھی متاثر کرسکتا ہے‘۔
ڈاکٹر اختر حسین کے مطابق، ’غیرمحفوظ جنسی تعلقات، منشیات کی لت اور خواتین پر تشدد جیسے تمام واقعات ایچ آئی وی کے خدشے میں اضافہ کرتے ہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان معاشروں میں خواتین کو کم سماجی حیثیت دینا بھی اس مرض کے پھیلاؤ کی ایک اہم وجہ ہے، ڈاکٹر اختر کے مطابق، ’عرب ممالک کے مسلمان بالخصوص شامی سرحد پر مہاجر کیمپوں میں موجود افراد کھانے اور پیسے کے حصول کے لیے غیرمحفوظ تعلقات قائم کررہے ہیں‘۔
مزید پڑھیں: ایڈز اور ایچ آئی وی سے نجات کی دوا تیار
ڈاکٹر اختر کے مطابق، پاکستان میں بھی خفیہ طور پر متعدد جنسی تعلق رکھنا عام بات ہے اور جنوبی افریقہ کے 2 میڈیکل کیمپوں میں 400 پاکستانیوں کی جانچ کے دوران 6 لڑکوں میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی تھی جن میں سے صرف ایک نے علاج کے لیے رضامندی ظاہر کی جبکہ بقیہ پانچ کچھ عرصے بعد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ڈاکٹر اختر حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'جنسی طور پرمنتقل ہونے والی بیماریوں کے باعث ایچ آئی وی کے خطرے میں 50 سے 60 فیصد تک اضافہ ہوجاتا ہے‘۔
جنوبی افریقہ ایڈز کو شکست دینے میں کامیاب
ڈاکٹر اختر حسین کا کہنا تھا کہ جنوبی افریقہ میں نوعمر لڑکیوں میں ایچ آئی وی کی شرح 20 سے 25 فیصد ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں میں ایچ آئی وی انفیکشن کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
جنوبی افریقہ کی کم عمر حاملہ لڑکیاں اور ان کے بچے دونوں ہی بے شمار وجوہات کی بنا پر ایچ آئی وی انفیکشن کی زَد پر ہوتے ہیں اور اس طرح کے واقعات میں اپنے گھر والوں اور معاشرے کی جانب سے قبولیت نہ ملنے پر اکثر لڑکیوں کو تعلیم چھوڑ کر اکیلے ہی اپنے بچے کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔
ڈاکٹر اختر کے مطابق، جنوبی افریقہ میں روایات اور سماجی اقدار بھی ایچ آئی وی انفیکشن کے خاتمے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں اور اس کے علاج کے لیے رائج متبادل طریقے مزید غیر محفوظ اور مرض کی شدت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
ان کا مزید بتانا تھا کہ جنوبی افریقہ کی حکومت نے عوام میں جنسی تعلیم اور خواتین کو محفوظ روابط قائم کرنے سے متعلق آگاہی فراہم کرکے کم عمر لڑکیوں میں حمل کی شرح کو بڑی حد تک کم کردیا ہے۔
دوسری جانب مقامی تحقیق کے مطابق ماں سے بچوں میں منتقل ہونے کے واقعات میں کمی کے لیے حاملہ خواتین کو دی جانے والی کامیاب تھراپی کے بعد حکومت کی جانب سے حاملہ خواتین کو ویکسینیشن فراہم کرنے کے پروگرام کا آغاز کیا جاچکا ہے۔
ڈاکٹر اختر کے مطابق حکومتی پالیسی کے تحت اب جنوبی افریقہ کی تمام حاملہ خواتین میں انفیکشن کی جانچ کی جاتی ہے اور ٹیسٹ مثبت آنے کی صورت میں ادویات کے ساتھ مفت کاؤنسلنگ بھی فراہم کی جاتی ہے، ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ وہ خاتون بعد میں بھی علاج جاری رکھے، اس پروگرام میں مقامی افراد کی موجودگی کی باعث کوئی بھی حاملہ خاتون اس کا حصہ بننے سے محروم نہیں ہوتی اور اس طریقہ کار کی بدولت ماں سے بچوں میں ایچ آئی وی کی منتقلی کے رسک کو واضح حد تک کم کیا جاچکا ہے۔
ڈاکٹر اختر حسین نے پاکستانی انتظامیہ کو بھی ملک کے تمام بین الاقوامی ایئرپورٹس پر ایچ آئی وی اسکریننگ پروگرام کے آغاز کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ دوسرے ممالک سے پاکستان کا رخ کرنے والے افراد میں انفیکشن کی جانچ کو یقینی بنایا جانا چاہیئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی کے فوری ٹیسٹ کا نتیجہ صرف ایک منٹ میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔
یہ خبر 11 نومبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی