ٹرمپ بھارت پر مہربان ہوسکتے ہیں ، پاکستانیوں کو خدشہ
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حیران کن کامیابی نے پاکستانیوں کو اس خطرے میں مبتلا کردیا ہے کہ امریکی پالیسی روایتی حریف بھارت کے حق میں ہوسکتی ہے۔
امریکا اور اسلام آباد ویسے تو کئی دہائیوں سے خطے میں اتحادی ممالک ہیں لیکن امریکا کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ فراہم کرنے کے الزام پر دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور اس الزام کو پاکستان مسترد کرتا ہے۔
پاک امریکا تعلقات رواں برس مئی میں اس وقت مزید خراب ہوگئے تھے جب امریکی ڈرون حملے میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا۔
اسی اثناء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بھی مزید کشیدہ ہوگئے، بھارت نے 18 ستمبر کو اڑی فوجی کیمپ پر ہونے والے حملے کا الزام پاکستان پاکستان پر عائش کردیا تھا جسے پاکستان نے یکسر مسترد کردیا تھا۔
کئی پاکستانی ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلم مخالف بیانات اور بھارت کے ساتھ تجارتی تعلق کو بڑھانے کے عزم کو اس بات کی علامت قرار دیتے ہیں کہ مستقبل میں ٹرمپ انتظامیہ بھارت کے مزید نزدیک ہوسکتی ہے۔
خارجہ پالیسی کے تجزیہ نگار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ ’امریکا پاکستان سے تعلق نہیں توڑے گا لیکن یقینی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے لیے ہیلری سے زیادہ سخت صدر ثابت ہوں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے امریکا سے زیادہ بہتر اور ہموار تعلقات ہوں گے‘۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اب تک جنوبی ایشیا کے حوالے سے تفصیلی خارجہ پالیسی جاری نہیں کی ہے تاہم حال ہی میں انہوں نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی۔
رواں برس مئی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں 10 ہزار امریکی فوجیوں کو برقرار رکھنے کی حمایت کریں گے کیوں کہ افغانستان کے پڑوس میں پاکستان ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔
مبارک باد اور یقین دہانیاں
ٹرمپ کی کامیابی کے بعد پاکستان میں تعینات امریکی سفارتکار نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ نئے صدر کے انتخاب کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کے حوالے سے پالیسی یکسر تبدیل ہوجائے گی۔
کراچی میں امریکی قونصل جنرل گریس شیلٹن نے جیو ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری خارجہ پالیسی قومی مفادات پر مبنی ہوتی ہے اور یہ حکومت بدلنے سے تبدیل نہیں ہوتی‘۔
دوسری جانب پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے پیغام میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد دی اور کہا کہ ٹرمپ کی فتح امریکی عوام اور جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق پران کے یقین کی جیت ہے۔
امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر سینیٹر شیری رحمٰن کہتی ہیں کہ ’امریکا میں جو بھی صدر منتخب ہو، پاکستان اس کے ساتھ مل کر چلنے کو خار از امکان قرار نہیں دے سکتا لیکن ٹرمپ کے مسلم مخالف بیانات موجودہ غیر یقینی صورتحال میں تعلقات کو دھندلا سکتے ہیں‘۔
بھارت پر امید
بھارتی وزیر اعظم نے بھی ٹرمپ کو جیت پر مبارک باد دی اور ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’ہم امریکا بھارت تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پر عزم ہیں‘۔
مزید پڑھیں: صدر بنا تو امریکا اور بھارت ’پکے دوست‘ ہوں گے، ٹرمپ
ڈونلڈ ٹرمپ کئی بھارتی تاجروں کے ساتھ مختلف ریئل اسٹیٹ منصوبوں پر کام کرچکے ہیں لیکن اب تک انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ دو طرفہ تعلقات کو کس طرح فروغ دیں گے۔
بھارت اور امریکا کے تعلقا صدر اوباما اور نریندر مودی کے دور میں فروغ پائے اور اس دوران دونوں ملکوں نے دفاع سمیت کئی معاہدے کیے۔
مودی کی حکومت پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کا بھی اعلان کرچکی ہے۔
مودی حکومت کے قریب سمجھے جانے والے تھنک ٹینک انڈیا فاؤنڈیشن کے دائریکٹر شوریا دوول نے ٹرمپ کی کامیابی کو مثبت پیش رفت قرار دیا لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ہیلری کلنٹن کامیابی حاصل کرتیں تو بھی بھارت امریکا تعلقا فروغ پاتے۔
افغانستان جنگ
ڈونلڈ ٹرمپ کو افغان جنگ کے مستقبل اور وہاں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے بھی فیصلے کرنے ہوں گے۔
امریکا 2002 سے افغانستان کے لیے امداد کی مد میں 115 ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے تاہم اب بھی افغانستان تنازعات کا شکار ہے اور ملک کے تقریباً ایک تہائی حصے حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں جبکہ سالانہ ہزاروں افغان شہری، فوجی اور پولیس اہلکار ہلاک ہوجاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کا نئے امریکی صدر سے فوج نکالنے کا مطالبہ
افغان حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ واشنگٹن میں افغان تنازع کو فراموش کردیا گیا ہے اور اگر یہ روش برقرار رہی تو مغرب کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
افغانستان کے سابق وزیر داخلہ عمر دادوزئی کا کہنا ہے کہ ’افغان عوام جنگ سے تنگ آچکے ہیں ،ہم چاہتے ہیں کہ ٹرمپ افغانستان اور خطے میں امن و استحکام لانے کے لیے کردار ادا کریں‘۔
ٹرمپ کی کامیابی کے بعد افغان طالبان نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کو نکالا جائے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’امریکا کو اس ناکام جنگ کے پیچھے اپنی معیشت اور فوج کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے‘۔