دنیا

ہیلری یاٹرمپ؟ امریکیوں کو نتائج کا بے چینی سے انتظار

صدارتی انتخاب جیتنے کے لیے امیدوار کو کل 538 میں سے کم سے کم 270 الیکٹورل کالج ووٹ حاصل کرنے ہوں گے.

واشنگٹن: امریکا میں ملک کے 45 ویں صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل تقریباً مکمل ہونے کے بعد نتائج مرتب کرنے کا عمل جاری ہے۔

امریکی شہریوں نے 8 نومبر کو ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ میں سے کسی ایک کو اپنا صدر منتخب کرنے کے لیے حق رائے دہی استعمال کیا۔

صدارتی انتخاب جیتنے کے لیے امیدوار کو کل 538 میں سے کم سے کم 270 الیکٹورل کالج ووٹ حاصل کرنے ہوں گے اور اگر کوئی بھی امیدوار 270 الیکٹورل ووٹ حاصل نہ کرسکا تو معاملہ ایوان نمائندگان میں جائے گا جو ٹاپ تھری امیدواروں میں سے صدر کا انتخاب کرے گی۔


اگر ہیلری کلنٹن نے کامیابی حاصل کی تو وہ امریکی تاریخ میں پہلی خاتون صدر ہونے کا اعزاز حاصل کرلیں گی جبکہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ فاتح قرار دیے گئے تو وہ وائٹ ہاؤس جانے والے معمر ترین صدر ہوں گے۔


رائٹرز اور Ipsos کے پول کے مطابق ہیلری کلنٹن کی کامیابی کے 90 فیصد امکانات ہیں جبکہ وہ 303 الیکٹورل ووٹ لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے سکتی ہیں۔

امریکا میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد رواں برس 20 کروڑ تک پہنچ گئی تھی جو ایک ریکارڈ ہے جبکہ ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے زائد رہنے کی توقع ہے۔

2012 کے انتخاب میں 24 کروڑ 10 لاکھ افراد ووٹنگ کی عمر کو پہنچ چکے تھے تاہم صرف 12 کروڑ 91 لاکھ افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا اور ٹرن آؤٹ 53.6 فیصد رہا تھا۔

امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق ڈیموکریٹ رہنما ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی نے ریاست نیویارک میں اپنے اپنے ووٹ کاسٹ کیے۔

اس سے قبل دونوں رہنماؤں نے پیر کے روز اہم انتخابی حلقوں کے دورے کیے اور ووٹرز کو قائل کرنے کی آخری کوشش کی تھی۔

ہیلری کلنٹن کو اوباما کی حمایت حاصل

انتخابی مہم ختم ہونے سے قبل ہیلری کلنٹن نے ریاست فلاڈلفیا میں انتخابی ریلی سے خطاب کیا، اس موقع پر امریکی صدر براک اوباما، ان کی اہلیہ مشیل اوباما اور سابق صدر بل کلنٹن بھی موجود تھے۔

فلاڈیلفیا میں انتخابی مہم کے موقع پر امریکی صدر اوباما، خاتون اول مشیل اوباما ، ہیلری کلنٹن اور بل کلنٹن اسٹیج پر موجود ہیں— فوٹو / رائٹرز

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ ’ہیلری کلنٹن جانتی ہیں کہ عوام کی خدمت کیسے کرنی ہے‘۔

اوباما نے ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ہیلری کلنٹن صرف ٹوئیٹ ہی نہیں بلکہ حقیقت میں بھی کام کریں گی اور نتائج دیں گی‘۔

ہیلری کلنٹن نے تقریباً 35 ہزار افراد کے مجمع سے خطاب میں کہا کہ ’انتخاب میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح کا ملک چاہتے ہیں‘؟

دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کا آخری دن نیو ہمپشائر میں گزارا جہاں انہوں نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ہیلری کلنٹن کو ’ناکامی کا چہرہ‘ قرار دیا۔

ٹرمپ نے ایف بی آئی کی جانب سے ہیلری کلنٹن کی ای میلز پر نظر ثانی کے حوالے سے کہا کہ ہیلری کلنٹن کو مکمل طور پر ’دھاندلی زدہ نظام‘ کے ذریعے تحفظ فراہم کیا گیا۔

انہوں نے ووٹرز سے کہا کہ ’آپ کے پاس کرپٹ نظام سے چھٹکارہ اور فراہمی انصاف کا ایک موقع ہے ، اس موقع پر ضائع مت ہونے دیں‘۔

ہیلری کو ٹرمپ پر برتری

انتخاب سے قبل ہونے والے تازہ ترین سروے کے مطابق ہیلری کلنٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر محض 4 پوائنٹس کی برتری حاصل تھی۔

سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن حامیوں کے نعروں کا جواب دے رہے ہیں— فوٹو / اے ایف پی

سی این این پول آف پولز کے مطابق ہیلری کلنٹن کو 46 فیصد جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو 42 فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل تھی اور یہ نتیجہ گزشتہ 7 پولز کے نتائج کا اوسط نکالنے کے بعد سامنے آیا۔

ٹرمپ کے لیے اہم ترین ریاستیں

ڈونلڈ ٹرمپ کو عہدہ صدارت پر براجمان ہونے کے لیے شمالی کیرولینا میں ہر صورت کامیابی حاصل کرنی ہوگی۔

اس کے علاوہ انہیں فلوریڈا، اوہائیو اور آئیوا میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے ہوں گے جہاں گزشتہ انتخابات میں براک اوباما نے کامیابی حاصل کی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ مشی گن میں انتخابی مہم کی آخری ریلی سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو / رائٹرز

ان میں سے کسی بھی ریاست میں ناکامی ٹرمپ کے 270 الیکٹورل ووٹ تک رسائی کو مشکل بناسکتی ہے۔

ہیلری کے لیے اہم ریاستیں

ہیلری کلنٹن کے لیے ڈیموکریٹس کی جانب جھکاؤ رکھنے والی ریاستوں پنسلوانیہ، مشی گن اور وسکونسن میں سابقہ کامیابی کو برقرار رکھنا چیلنج ہوگا۔

فوٹو: اے ایف پی

سی این این کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں ان تینوں ریاستوں کو توجہ کا مرکز بنائے ہوئے تھے تاہم ان ریاستوں میں ہونے والے سروے میں ہیلری کلنٹن کو ہی برتری حاصل رہی ہے۔

اگر ہیلری کلنٹن مذکورہ تینوں ریاستوں میں کامیابی کو برقرار رکھیں اور شمالی کیرولائنا ، فلوریڈا یا اوہائیو میں سے کسی بھی ایک ریاست میں کامیابی حاصل کرلیں تو ان کی کامیابی یقینی ہوسکتی ہے۔