پاکستان

پاناما اسکینڈل: پیپلز پارٹی کمیشن کے قیام کی مخالف

سپریم کورٹ کے ججز خود ان ٹی او آرز کی بنیاد پر کیس کا فیصلہ کریں جو اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں جمع کرائے ہیں، اعتزاز احسن

اسلام آباد: سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے پاناما گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے مجوزہ کمیشن کے قیام کی مخالفت کردی اور ججز سے درخواست کی ہے کہ وہ خود ہی ان ٹی او آرز کی بنیاد پر کیس کا فیصلہ کریں جو اپوزیشن کی جانب سے پارلیمنٹ میں بل کی صورت میں پیش کیے جاچکے ہیں۔

پارلیمنٹ ہاؤس کے چیمبر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے کہا کہ اگرچہ مارضی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت کمیشن بناتی رہی ہے لیکن پاناما لیکس کے معاملے میں کمیشن بنانے سے تحقیقات کے عمل میں مزید تاخیر ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس مثالیں موجود ہیں کہ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت میمو کمیشن اور میڈیا پر ایک کمیشن تشکیل کیا تھا لیکن ہمارے خیال میں پاناما کیس میں کمیشن نہیں بننا چاہیے‘۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ ’اگر آپ کیس کا فیصلہ جلد چاہتے ہیں تو تو سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ اس کیس کا فیصلہ خود کرے اور ان ٹی او آرز کی روشنی میں کرے جو اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں جمع کرائے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس کیس : سپریم کورٹ کا ایک رکنی کمیشن کے قیام کا فیصلہ

اعتزاز احسن نے الزام عائد کیا کہ حکومت پاناما کیس کی تحقیقات میں تاخیر چاہتی ہے اور ان کے وکیل کی جانب سے شریف خاندان کی بیرون ملک جائیدادوں اور رقم منتقلی کی تفصیلات جمع کرانے کے لیے دو ہفتوں کا وقت مانگنا اس بات کی دلیل ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکمران زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ دستاویز ’جعلی دستاویز‘ کا بندوبست کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں ٹی او آرز اور بل کے مسودے پر متفق ہیں جس پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں منگل (آج) غور کیا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں اعتزاز احسن نے کہا کہ کمیٹی کا اجلاس پیر کو ہونا تھا لیکن حکومت کی جانب سے وزیر قانون زاہد حامد کی درخواست پر اسے ایک روز کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ اپوزیشن کے پاناما بل کے مستقبل کا دارومدار حکومت پر منحصر ہے کیوں کہ قومی اسمبلی میں ان کی اکثریت ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پاکستان مسلم لیگ ن کے جاوید عباسی کی سربراہی میں ’پاناما پیپرز انکوائری ایکٹ 2016‘ پر دوبارہ بحث شروع کرے گی جو اعتزاز احسن نے 26 ستمبر کو سینیٹ میں پیش کیا تھا اور اپوزیشن نے حکومتی بل کو 13 ووٹ کی برتری سے ناکام بنادیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں پرانے ٹی او آرز ہی جمع کرائے جانے کا امکان

کمیٹی کی جانب سے ایسے وقت میں بل پر غور کیا جارہا ہے جب سپریم کوٹ پہلے ہی اس بات کا اعلان کرچکی ہے کہ وہ مجوزہ کمیشن کے لیے اپنے ٹی او آرز تشکیل دے گی۔

حکومت اپوزیشن کے بل کو پہلے ہی لاحاصل اور غیر موثر قرار دے کر مسترد کرچکی ہے جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت قانون ایک بار پھر اس کی مخالفت کرے گی۔

دوسری جانب اپوزیشن کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو قانون سازی سے نہیں روک سکتی اور اپوزیشن کا بل پاناما اسکینڈل کی تحقیقات میں معاون ثابت ہوگا۔

حکومت کہتی ہے کہ اپوزیشن کا بل مکمل طور پر جانبدار ہے جس کا مقصد وزیر اعظم کو نشانہ بنانا ہے جن کا نام بھی پاناما پیپرز میں شامل نہیں۔

اپوزیشن کے بل میں اس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ مجوزہ کمیشن سب سے پہلے وزیراعظم اور ان کے خاندان کی تحقیقات کرے جس کے بعد دیگر پاکستانیوں کی تحقیقات کی جائیں۔

تاہم بل کے مسودے میں وزیر اعظم کا عہدہ یا نواز شریف کا نام استعمال کرنے سے گریز کیا گیا ہے بلکہ ان کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے کہ: ’اس فریق کے خلاف جس نے رضاکارانہ طور پر عوام کے سامنے خود کو اور اپنی فیملی کو احتساب کے لیے پیش کیا، یا جس نے عوام کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اور اس کی فیملی آف شور اثاثے رکھتے ہیں، پہلے انکوائری مکمل ہونی چاہیے‘۔

یہ خبر 8 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی